سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کا ازخود نوٹس لے لیا

سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو انصاف لائرزفورم کی تقریب میں شرکت پر نوٹس جاری کر تے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

سرکاری عمارت میں پرائیوٹ تقریب کا ازخود نوٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل بینچ نے لیا۔

عدالت نے تحریری حکم میں کہا ہے کہ ایڈیشنل سیکرٹری سپریم کورٹ بار سید رفاقت حسین شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو پنجاب بار کونسل کی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے وہ وکلاء سیاست میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں، انہوں نے وکلاء کے ایک دھڑے کے فنکشن میں وزیر اعظم کے ہمراہ شرکت بھی کی۔

عدالت نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ سید رفاقت علی شاہ کے تحفظات کسی بھی پبلک آفس کی ساکھ، وزیر اعظم کے حلف اور بنیادی حقوق بالخصوص آئین کے آرٹیکل 18 ،25 اور  26کے حوالے سے ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، لہٰذا بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عدالت 184تین کے تحت اس معاملے کا نوٹس لیتی ہے۔

تحریری حکم کے مطابق عدالت کنونشن سینٹر کے نجی استعمال پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو نوٹس جاری کرتی ہے ، آئین کے آرٹیکل 248کے تحت وزیر اعظم کایہ عمل فرائض کی ادائیگی اور اختیارات میں نہیں آتا۔ 

عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے قانونی سوالات پر معاونت طلب کی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے ونگ کے پروگرام میں شرکت کیا وزیر اعظم کے حلف اور آئین کے تحت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تو نہیں؟

سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم سرکاری عمارت میں منعقدہ سیاسی جماعت کے ونگ کی تقریب میں کیسے گئے؟کیا وہ پورے ملک کے وزیر اعظم نہیں؟ وزیراعظم ملک کے ہر فرد کا وزیراعظم ہے، بظاہر وزیراعظم نے تقریب میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی، لیکن کیا وزیر اعظم کا رتبہ اتناکم ہےکہ وہ کسی ایک جماعت کے ساتھ خود کو منسلک کرے؟

یہ ریمارکس جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 2 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے دیے جہاں زمین کے ایک مقدمے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس جمعے کے روز سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بجائے وزیر اعظم کے ہمراہ کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقدہ  انصاف لائرز فورم کی تقریب میں براجمان رہے تھے۔

آج دوران سماعت عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی عدم حاضری پر برہمی کااظہار کرتے ہوئےکہاکہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے لیکن وزیر اعظم کے ہمراہ سیاسی جماعت کے پروگرام میں موجود رہے، ایڈووکیٹ جنرل پورے صوبے کا سب سے بڑا لاء افسر ہےکسی سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں،  وزیر اعظم بھی اس تقریب میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟ وہ تو پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں،عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو طلب کرکے سماعت کچھ دیرکے لیے ملتوی کردی۔

بعد میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا وزیراعظم نے بطور وزیراعظم پروگرام میں شرکت کی اور کیا وزیراعظم اور ایڈووکیٹ جنرل ایساکرنے کے مجاز تھے؟کیا کوئی آئینی عہدے دار ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کرسکتا ہے؟ 

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے کہا کہ ان کی تقرری سیاسی نہیں لیکن وہ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے وزیر اعظم کے معاملے پر رائے نہیں دے سکتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل جو کہ ایک آئینی عہدیدار ہےکیسے سیاسی جماعت کی تقریب میں بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا کوئی جج بھی کسی سیاسی جماعت کے ونگ کی تقریب میں جا سکتا ہے؟ سیاسی جماعت کی تقریب کے لیے سرکاری عمارت کنونشن سینٹر کا استعمال کیسے ہوا؟ اس حوالے سے قانونی معیارکیا ہے؟ 

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وکلاء کی تقریب کی وجہ سے گئے، میں صرف پنجاب حکومت کی نمائندگی کررہا ہوں، وزیراعظم کے بارے رائے نہیں دے سکتا۔

 عدالت نے وزیراعظم پاکستان اور اٹارنی جنرل سمیت ایڈووکیٹ جنرل، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے صدورکو نوٹس جاری کرتے ہوئےکہا ہے کہ عدالت کی معاونت کی جائے کہ کیا وزیر اعظم اور ایڈووکیٹ جنرل کسی سیاسی جماعت کے ونگ کی تقریب میں جاسکتے ہیں اورکیا ایساکرنا ان کے حلف اور آئین کے تحت ان کے ضابطہ اخلاق کے خلاف تو نہیں؟

 عدالت نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے کہ بتایاجائے کنونشن سینٹر میں پرائیویٹ تقریب کی ادائیگی کی گئی یا نہیں؟

سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نوٹس سے متعلق تحریری حکم نامے میں کہاہےکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا آفس وکلاء کی سیاست کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ اور بنیادی حقوق اور وزیراعظم کا حلف کا یہ اہم معاملہ ہے، اس معاملے پر سپریم کورٹ 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس لے رہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے سفارش کی ہے کہ اس معاملے پر نیا بینچ بنا کر سماعت کی جائے۔

مزید خبریں :