بلاگ
Time 09 نومبر ، 2020

گُڈ بائے گھمنڈی

فوٹو: فائل 

بدتمیز، غصیلا، ضدی، گھمنڈی اور متعصب لیکن اپنے حامیوں کا ہیرو، ایک ایسا ہیرو جس نے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دیا اور نفرت کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا، آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ 

نفرتوں کی سیاست کرنے والے اُس شخص کا نام ڈونلڈ ٹرمپ تھا جو اب امریکا کا سابق صدر بن چکا ہے، ٹرمپ امریکا کی تاریخ کا پہلا صدر تھا جس نے اپنے سیاسی مخالفین سمیت مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کم از کم پچیس مرتبہ غداری کے جھوٹے الزامات لگائے، کوئی ایک الزام بھی ثابت نہ کر سکا۔ 

پہلے سال اُنہوں نے امریکی ٹی وی چینل سی این این پر فیک نیوز پھیلانے کا الزام لگایا اور اِس چینل کے بائیکاٹ کی اپیل کی، 2020ء کے صدارتی الیکشن کے باقاعدہ نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی ٹرمپ نے اپنی فتح کا اعلان کردیا اور یہ اعلان اِس سال کی سب سے بڑی فیک نیوز بن گیا۔ 

وہ ہٹ دھرم ٹرمپ جو دوسروں پر جھوٹے الزامات لگا کر اُن کی عزتیں اچھالتا تھا، آج خود پوری دنیا میں فیک نیوز کی علامت بن چکا ہے، ٹرمپ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک رویےّ کا نام ہے۔ 

آج دنیا کے مختلف ممالک میں ہمیں ٹرمپ جیسی سیاست کرنے والے لوگ اہم عہدوں پر براجمان نظر آتے ہیں جو سیاسی مخالفین پر بغیر ثبوت کے غداری کے الزامات لگاتے ہیں، آزادیٔ اظہار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، مذہبی، نسلی اور لسانی تعصب کی بنیاد پر اقلیتوں کے حقوق غصب کرتے ہیں اور اپنے معاشروں میں تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔ 

ٹرمپ کی شکست دنیا کے مختلف خطوں کے کئی ممالک میں دائیں بازو کی مفاد پرستانہ سیاست کے زوال کا آغاز ہے، اِس قسم کی سیاست کرنے والے لیڈر صرف جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ 

عوام کو ظلم و ناانصافی اور مہنگائی سے نجات کے خواب دکھاتے ہیں اور حکمران بننے کے بعد خود ظالم بن جاتے ہیں، غریبوں پر مہنگائی مسلط کر دیتے ہیں اور پھر اپنی نااہلی اور کرپشن کو چھپانے کے لئے مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں۔ 

جب دوسروں پر کرپشن کے الزامات ثابت نہ ہو سکیں تو پھر ٹرمپ جیسے لیڈروں کی آخری پناہ گاہ حب الوطنی بنتی ہے، وہ بہت بڑے پیٹریاٹ بن جاتے ہیں اور سیاسی مخالفین کو ملک دشمن قرار دینے لگتے ہیں، ٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالف باراک اوباما کو صرف اس لیے غدار قرار دے دیا کیونکہ اُن کی پارٹی مختلف تھی اور اُن کا رنگ مختلف تھا۔

ٹرمپ نے الزام لگایا کہ 2016ء کے صدارتی الیکشن کے دوران اوباما نے میری جاسوسی کرائی اور یہ غداری کے مترادف تھی، اوباما صدر بنے تو اُنہوں نے گورے اور کالے امریکیوں کو متحد کیا، ٹرمپ صدر بنے تو اُنہوں نے گورے اور کالے امریکیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ 

ٹرمپ نے صرف گوروں کو اپنی طاقت بنانے کی کوشش کی، جس کسی نے ٹرمپ پر تنقید کی وہ ملک دشمن قرار پایا، ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ پر بھی غداری کا الزام لگا دیا اور اُن کی دیکھا دیکھی کئی جمہوری ممالک کی رائٹ ونگ حکومتوں نے بھی میڈیا کو دبانے کی کوششیں شروع کردیں لیکن میڈیا کو عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کرنے والا ٹرمپ آج خود عبرت کا نشان بن چکا ہے۔ 

یاد کیجئے! اِس ٹرمپ نے 2015ءمیں لندن کے میئر صادق خان کی ذات پر حملے شروع کیے تھے، ٹرمپ نے اپنی پہلی الیکشن مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کردے گا۔ 

صادق خان نے اِس بیان کی مذمت کی جس کے بعد ٹرمپ نے صادق خان کو متعدد بار نااہل قرار دیا اور کہا کہ لندن کو ایک نئے میئر کی ضرورت ہے، ٹرمپ کو صادق خان صرف اِس لیے گوارا نہ تھے کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 

نفرت اور تعصب کی بنیاد پر سیاست کرنے والے ٹرمپ کو صادق خان تو اچھا نہیں لگتا تھا لیکن جہاں ٹرمپ کا اپنا مفاد ہوتا تھا وہاں وہ مسلمان بادشاہوں کے ساتھ ناچنے میں بھی فخر محسوس کرتا تھا۔ 

ٹرمپ کے یہ یوٹرن اُنہیں شکست سے نہ بچا سکے اور 2020ءکے صدارتی الیکشن میں گوروں اور کالوں، مسیحیوں اور مسلمانوں، بوڑھوں اور جوانوں سب نے مل کر ٹرمپ کو شکست دی، یہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک رویےّ کی شکست ہے، دنیا کی اکثر جمہوریتوں میں نوجوان لیڈر صدر اور وزیراعظم بن رہے تھے لیکن امریکیوں نے 78سالہ جوبائیڈن کو صدر بنا کر پیغام دیا ہے کہ اُنہیں ایک ایسے سنجیدہ اور تجربہ کار لیڈر کی ضرورت ہے جو امریکا کو متحد کر سکے۔ 

جوبائیڈن کوئی آئیڈیل یا بہت بڑے انقلابی لیڈر نہیں ہیں، تیس سال کی عمر میں پہلی دفعہ سینیٹر بنے اور اٹھتر سال کی عمر میں صدر بن گئے ہیں، اُن کی جیت میں نائب صدر کی امیدوار کمالا ہیریس نے اہم کردار ادا کیا ہے جن کی وجہ سے جوبائیڈن کو افریقی نژاد اور ایشیائی امریکیوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ 

ٹرمپ نے امریکی معاشرے میں اتنی نفرت اور خوف پھیلا رکھا تھا کہ جوبائیڈن کی فتح کے اعلان پر اُن کے حامی فرطِ جذبات سے رونے لگے، اُنہیں ایسا لگا کہ امریکا کو دوبارہ آزادی مل گئی ہے۔

جوبائیڈن کی فتح پر مظلوم کشمیری بھی خوش ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ 5 اگست 2019 کو جو سقوطِ کشمیر ہوا، اُس میں نریندر مودی کو ٹرمپ کی خاموش تائید حاصل تھی۔ 

جوبائیڈن اور کمالا ہیریس نے 5 اگست 2019ء کے بعد کشمیریوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی مذمت کی تھی، اوباما کے دور میں جوبائیڈن نائب صدر تھے، وہ نواز شریف، آصف زرداری اور پرویز الٰہی کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں، آصف زرداری نے تو اپنے دور میں جوبائیڈن کو ہلال پاکستان بھی دیا تھا۔ 

سات نومبر کو آصف زرداری اور نواز شریف کی فون پر گفتگو ہوئی تو اُس میں پرویز الٰہی کا بھی ذکر آیا اور اگلے دن اُن سب نے جوبائیڈن کو مبارکباد کے پیغامات بھی بھجوائے، دوسری طرف ٹرمپ نے امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ 

اُس کا الزام ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، ہو سکتا ہے وہ کنٹینر پر چڑھ جائیں اور دھرنوں کا اعلان کردیں لیکن وائٹ ہائوس سے نکلنے کے بعد اُن کے لئے جھوٹ بولنا مشکل ہو جائے گا، وہ جو بھی جھوٹ بولیں گے تو ٹوئٹر سمیت تمام امریکی ٹی وی چینلز دنیا کو یہ بھی بتائیں گے کہ ٹرمپ جھوٹا ہے۔ 

جھوٹ نے اِس دنیا کو تقسیم اور غیر محفوظ کیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں میڈیا ٹرمپ جیسے جھوٹوں اور گھمنڈیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جائے اور اُن کا جھوٹ بےنقاب کر کے عوام کو ایسے بدتمیزوں سے نجات دلائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔