بلاگ
Time 20 نومبر ، 2020

گلگت بلتستان الیکشن کس کی جیت کس کی ہار!

جب 80 سالہ معذور بزرگ زائد عمر سے پوچھا گیا کہ کیوں وہ اس قدر ٹھنڈ میں صبح صبح اتنی دور ووٹ ڈالنے آئے ہیں تو ان کو حکومتی مؤقف کی پرواہ تھی نہ پی ڈی ایم بیانیے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں جو امیدوار جیتے گا وہ اس پسماندہ علاقے کے مسائل کو حل کرے گا۔ 

اس سال موسم سردہ کی آمد کے ساتھ ساتھ گلگت کی دلکش وادی میں انتخابات کے موسم نے بھی اپنے قدم جمائے۔ پورے جوش و خروش سے یہاں 33 میں سے23 نشستوں پر پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔

 اب جبکہ ان انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں تو ہر جماعت اپنے اپنے انداز سے اس کی تشریح کر رہی ہے۔ الیکشن سے پہلے تمام جماعتیں، چاہے وہ حکومت میں پی ٹی آئی ہو یا پھر پی ڈی ایم کی اپوزیشن جماعتیں، ان سب کا خیال تھا کہ جی بی انتخابات یہ طے کریں گے کہ پاکستان کی عوام کس کے ساتھ ہے۔ 

اب جب کہ نتائج سامنے آ چکے ہیں تو ظاہر ہے جیتنے والی جماعت نے اپنا پہلے کا موقف ہی قائم رکھا کہ یہ نتائج پاکستان کے لوگوں کے جذبات کی عکاسی ہے اور اس نے پی ڈی ایم کے بیانیے کو رد کر دیا ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے ان نتائج کو ہی رد کر دیا۔ ووٹوں کی غلط گنتی اور پری پول دھاندلی جیسے الزامات بھی لگائے۔

جی بی کے نتائج سے اخذ کرنے والے یہ دونوں ہی موقف حقیقت سے دور ہیں۔ حکومت کا یہ دعوٰی، کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئ کی جیت سے پورے پاکستان کی عوام کے جذبات کا پتا چلتا ہے درست نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ جی بی کے تیسرے انتخابات تھے اور ہر دفعہ یہاں وہی پارٹی جیتی ہے جو وفاق میں ہوتی ہے۔ 2009 میں پی پی پی اور ۲۰۱۵ میں ن لیگ جیتی تھی۔ 

اگر حکومت ان الیکشن سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ وفاق میں ہونے کے باوجود اور جی بی کی عوام سے نیا صوبہ بنانے کا وعدہ کرنے کے باوجود پی ٹی آئی یہاں سے سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ جبکہ 2009 میں پی پی پی نے 24 میں سے 14 سیٹیں جیتی تھیں اور 2015 میں ن لیگ نے 24 میں سے 16 سیٹیں اپنے نام کی تھیں۔ دیکھا جاۓ تو 24 میں سے صرف 10 سیٹیں جیتنا اور آزاد امیدواروں کا سات سیٹیں جیتنا، پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

حکومت کا دوسرا دعوٰی کہ ان انتخابات نے پی ڈی ایم کے بیانیے کو کوڑے میں ڈال دیا ہے کوئی وزن نہیں رکھتا۔  یہاں اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں میں بڑی تعداد میں شرکت دیکھی گئی۔ لیکن جی بی کی جغرافیہ اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے یہاں کے انتخابات اور سیاست پورے پاکستان سے مختلف ہے اور یہ علاقعہ ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے یہاں اب تک وفاق میں جو جماعت ہوتی ہے وہی حکومت بناتی آئی ہے۔ جس طرح پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کے بجائے تمام اپوزیشن پارٹیز نے اپنی انفرادی حیثیت میں یہاں انتخابی مہم چلائی اسی طرح یہ نتائج بھی ان پارٹیز کی انفرادی طور پر نمائندگی کرتے ہیں نہ کے پی ڈی ایم کے بیانیے کی۔ اور اسی وجہ سے اپوزیشن کا ووٹ الگ الگ جماعتوں میں تقسیم ہوگیا جس کا فائدہ حکومت کو ہوا۔

ہر الیکشن کی طرح ہارنے والی جماعتیں دھاندلی اور ووٹ چوری کے الزامات لگاتی ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا  جب کہ گیلپ  اور پلس کے سرویز میں بھی جو نتائج سامنے آئے اس سے واضح تھا کہ پی ٹی آئی نمبر ون، پی پی پی نمبر 2 اور ن لیگ تیسرے نمبر پر ہوگی۔ اس لیے یہ نتائج کوئی سرپرائز نہیں تھے لیکن الیکشن سے پہلے ہی یہ دھاندلی کے الزامات اٹھانا اپوزیشن کے کیس کو کمزور بنا دیتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا سمجھتے تھے تو انہوں نے اس کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کے بجائے پر جوش طریقے سے وہاں مہم کیوں جاری رکھی۔ 

بلاول بھٹو وہاں تقریباً ایک مہینے سے انتخابی مہم میں مصروف رہے اور تقریباً ہر حلقے میں انہوں نے دورہ کیا۔ دھاندلی اور ووٹ چوری کے الزامات کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ثبوت پیش کریں اور حتمی انکوائری کا راستہ اپنائیں۔ لیکن عقل کا تقاضہ یہ بھی کہتا ہے کی اگر دھاندلی ہوئی ہوتی تو پی ٹی آئی کم از کم سادہ اکثریت تو اپنے نام کر پاتی۔

10 لاکھ سے اوپر آبادی رکھنے والا یہ علاقہ اپنی خوبصورتی کے علاوہ اقتصادی اور سماجی پسماندگی کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ آج کی صدی میں انٹرنیٹ، سڑک، ڈسپینسری، بجلی جیسی سہولیات کی عدم فراہامی کی وجہ سے پاکستان کے باقی علاقوں سے اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ اس کے باوجود سخت موسم میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر یہاں کی عوام نے ووٹ ڈالے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

 اس لیے سیاست دان جو بھی سمجھیں لیکن یہ جیت جمہوریت کی ہے۔ یہ جیت 98 سالہ ووٹر شعبان علی کی ہے جو اپنی عمر کا اور سخت موسم کا خیال نہ کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے چلے آئے۔ یہ جیت گلگت کے ضلع تانگیر کی خاتون امیدوار سعدیہ دانش کی ہے جن کے حلقے میں آج بھی عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔اس قدر جوش و خروش سے انتخابی مہم میں حصہ لینا یہاں کی عوام کا جمہوری نظام پہ اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ امید ہے یہ حق استعمال کرتے ہوئے جن سیاست دانوں کو عوام نے چنا ہے وہ ان کو مایوس نہیں کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔