بلاگ
Time 07 دسمبر ، 2020

جمالی صاحب کی کہانی

فائل:فوٹو

جو 2002ءمیں نہ ہو سکا وہ 2020ءمیں ہو گیا۔ ابھی کل کی بات ہے۔ 10؍اکتوبر 2002ءکو عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی شرح مسلم لیگ (ق) کے ووٹوں سے زیادہ تھی لیکن قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی نشستیں کم نکلیں۔

جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں بننے والی مسلم لیگ (ق) کے پاس سادہ اکثریت نہ تھی اور آصف علی زرداری اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر مولانا فضل الرحمٰن کو وزیراعظم بنوانے کے لئے کوشاں تھے۔

اُنہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان کی مدد سے پیپلز پارٹی، متحدہ مجلسِ عمل، مسلم لیگ(ن) اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل اتحاد بنا لیا جو مرکز کے علاوہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں بنا کر مسلم لیگ (ق) کو صرف پنجاب تک محدود کرنے کے قریب تھا۔

اِس دوران پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کو پیشکش کی کہ مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے لیکن پیپلز پارٹی نے اِس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ کچھ واضح نہ تھا کہ کون وزیراعظم بنے گا۔ یہ وہ دن تھے جب جیو ٹی وی کا نیا نیا آغاز تھا۔

سینیٹر انور بیگ میڈیا میں اپنے دوستوں کے ذریعے مخدوم امین فہیم کے لئے مسلسل لابنگ کر رہے تھے لیکن دوسری طرف چوہدری شجاعت حسین نے میر ظفر اللہ جمالی کو مسلم لیگ (ق) کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ چھوٹی جماعتوں سے بلوچستان کے نام پر ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ پرویز مشرف کو جمالی صاحب پسند نہ آئے کیونکہ چہرے پر داڑھی تھی اور شلوار قمیص میں ملبوس رہتے تھے۔

ایک دن میں نوابزادہ نصراللہ خان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جیو ٹی وی پر ایک گفتگو کا اہتمام کرنا چاہتا ہوں جس میں وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدواروں کو مدعو کیا جائے گا۔ اُنہوں نے پوچھا آپ کس کس کو مدعو کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن، مخدوم امین فہیم اور میر ظفر اللہ جمالی کو بلایا جا سکتا ہے۔

نوابزادہ صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ مولانا اور مخدوم صاحب تو دونوں ہمارے امیدوار ہیں۔ دونوں میں سے ایک کو بلائیں، ورنہ تاثر ملے گا کہ مشرف کے مخالفین آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اُنہوں نے پوچھا کہ جمالی صاحب کا تو کوئی اعلان نہیں ہوا۔

آپ کو کس نے بتایا کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار ہیں؟ میں نے جواب میں کہا کہ وہ مشرف کے نہیں، چوہدری برادران کے اُمیدوار ہیں۔ سب نے کوشش کی کہ مولانا فضل الرحمٰن ہمارے پہلے کیپٹل ٹاک میں آ جائیں لیکن نوابزادہ صاحب نے صلاح مشورے کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کو بھیج دیا۔ اُس پہلے کیپٹل ٹاک کا موضوع تھا... ’’کون بنے گا وزیراعظم؟‘‘

جب مشرف کو یقین ہو گیا کہ پیپلز پارٹی اُس کے دام میں نہیں پھنسی تو موصوف نے نیب کے ذریعے مخدوم فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، نوریز شکور اور رضا حیات ہراج سمیت پیپلز پارٹی کے دس ایم این اے توڑ کر ایک پیٹریاٹ گروپ بنا دیا۔ وفاداری تبدیل کرنے کو پیٹریاٹ ازم کا نام دیا گیا۔ پھر صورتحال نے ایک اور پلٹا کھایا۔

محترمہ بےنظیر بھٹو نے مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت سے معذرت کر لی اور شاہ محمود قریشی کو اپنا اُمیدوار بنا لیا۔ 21؍نومبر 2002کو وزیراعظم کا انتخاب ہوا جس میں میر ظفر اللہ جمالی کو 172، مولانا فضل الرحمٰن کو 86اور شاہ محمود قریشی کو 70ووٹ ملے۔

جمالی صاحب کو مشرف نے نہیں دراصل محترمہ بےنظیر بھٹو نے وزیراعظم بنوایا اگر پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کرتی تو جمالی صاحب کا وزیراعظم بننا مشکل تھا۔ یہ ویسی ہی صورتحال تھی جس میں 2018ءمیں عمران خان وزیراعظم بنے۔

اگر شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیتے تو 2018ءمیں شہباز شریف وزیراعظم بنتے لیکن شہباز شریف نے انکار کیا اور عمران خان کو وزیراعظم بنانا پڑ گیا۔ بات ہو رہی تھی جمالی صاحب کی۔ وہ وزیراعظم تو بن گئے لیکن پرویز مشرف کے منظورِ نظر نہ بن سکے۔ اُن دنوں عمران خان مسلم لیگ (ن) کے بہت قریب تھے۔

اُنہوں نے چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف کے ساتھ قربت کے باعث مولانا فضل الرحمٰن کو وزارتِ عظمیٰ کا ووٹ دیا تھا۔ عمران خان کیپٹل ٹاک میں مشرف پر بہت تنقید کرتے تھے۔ مجھے کبھی لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید اور کبھی طارق عزیز کی طرف سے کہا جاتا کہ عمران خان کو کیپٹل ٹاک میں نہ بلایا کریں۔ میں اُس دباؤ سے نکلنے کے لئے جمالی صاحب کی مدد لینے کی کوشش کرتا کیونکہ وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد تو صرف اور صرف مشرف کی مرضی کے مطابق چلتے تھے۔

ایک دن میں نے بیگم سرفراز اقبال سے جمالی صاحب کو سفارش کرائی کہ عمران خان پر غیرعلانیہ پابندی ختم کرائی جائے تو جمالی صاحب نے مجھے کہا کہ میرے تو اپنے معاملات ٹھیک نہیں، میں تمہارے معاملات کیسے ٹھیک کراؤں؟ پتا چلا کہ مشرف صاحب پانچ سو کے کرنسی نوٹ پر قائداعظم کی تصویر ہٹا کر اپنی تصویر لگوانا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم نے اِس خواہش کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔

 2004ءمیں مشرف نے امریکہ کے دباؤ پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربانی کا بکرا بنایا اور اُنہیں امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمالی صاحب نے اُس فیصلے کی منظوری دینے سے بھی انکار کر دیا لہٰذا اُسی سال جون میں اُن کی چھٹی ہو گئی۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ مشرف چاہتے تھے کہ جمالی صاحب خود شوکت عزیز کا نام بطور وزیراعظم تجویز کریں لیکن جمالی صاحب نے انکار کر دیا اور چوہدری شجاعت کا نام تجویز کر دیا۔

بعد ازاں چوہدری صاحب کو شوکت عزیز کا نام تجویز کرنا پڑا لیکن جمالی صاحب کے انکار کے باعث وہ تین ماہ کے لئے وزیراعظم بن گئے۔

جمالی صاحب نے اپنی الوداعی تقریب میں الزام لگایا کہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کو فروخت کیا گیا، جس پر مشرف سیخ پا ہو گئے لیکن اُس واقعے کا میڈیا میں بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔

کچھ سال گزرنے کے بعد جمالی صاحب نے مجھے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کچھ رازوں سے پردہ ہٹا دیا لیکن کچھ راز وہ اپنے ساتھ لے گئے۔

اُن کی زندگی کے آخری دنوں میں وہ ہو گیا جو 2002ءمیں نہ ہو سکا تھا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی ف، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی مینگل اور دیگر جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو چکی ہیں۔

2002ءمیں بھی اِس اتحاد کو توڑنے کیلئے پیپلز پارٹی پر دباؤ ڈالا گیا اور 2020ء میں بھی، اِس اتحاد کو توڑنے کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ 2002ءمیں دھوکہ ہوا تھا اسلئے 2020ءمیں وہ کسی پر اعتماد کے لئے تیار نہیں۔ جمالی صاحب پیپلز پارٹی کی وجہ سے وزیراعظم بنے۔

وہ دنیا چھوڑ گئے لیکن اپنے پیچھے ایک کہانی چھوڑ گئے۔ کہانی کا سبق یہ ہے کہ سیاست میں اصل طاقت عوام کی حمایت ہوتی ہے کسی اور کی حمایت دیرپا نہیں ہوتی، اِسی لئے جمالی صاحب کو استعفیٰ دینا پڑا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔