14 دسمبر ، 2020
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انصاف کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ریاست کی طرف سے اور الزام عدالتوں پر آتا ہے جب کہ ریاست فوری انصاف کی فراہمی کی ذمہ داریاں اداکرنے میں مکمل ناکام ہوچکی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں تاخیرکے کیس پر سماعت کی جس پر عدالت نے وفاقی حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو طلب کرلیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ شہزاد اکبر 24 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب بتائیں یہ آئین کب آیا تھا؟ آئین میں لکھاہے جلد اور فوری انصاف ہر شہری کو فراہم کیا جائے گا، عدالتیں دیکھ لیں آپ نےکس حال میں بنارکھی ہیں اور شہریوں کو وہاں کتنے مسائل ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سےمکالمہ کیا کہ انصاف کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ریاست کی طرف سے اور الزام عدالتوں پر آتا ہے، آپ جو رپورٹس جمع کراتے ہیں ان سےکوئی دلچسپی نہیں،عملاًبتائیں کیاکیا؟ دس دن کاوقت ہے ہمیں کوئی عملی حل بتائیں ورنہ اعلیٰ ترین عہدیدارکوطلب کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ ریاست فوری انصاف کی فراہمی کی ذمہ داریاں اداکرنے میں مکمل ناکام ہوچکی، یہ وفاقی دارالحکومت ہے جس کو ماڈل ہونا چاہیے تھا، شہزاد اکبر پیش ہوکر مطمئن کریں کیا اقدامات کیےجا رہے ہیں، بار کونسل سمیت فریقین نے جو تجاویز دی تھیں ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو۔