Time 19 دسمبر ، 2020
بلاگ

وزیر داخلہ کا اصل چیلنج

فوٹو: فائل

اِس وقت وزیر داخلہ شیخ رشید کو وزیراعظم عمران خان سمیت پوری کابینہ پر یہ منفرد فوقیت حاصل ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے کا اتنا وسیع تجربہ رکھتے ہیں کہ اُن کے مقابلے کا پوری کابینہ میں کوئی دوسرا نہیں۔ 

وہ عام طور پر کوئی قدم اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت کے بغیر نہیں اُٹھاتے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں کبھی برے دن نہیں دیکھتے، طاقتور حلقوں کے ساتھ وہ اپنے تعلقات کے بارے میں کبھی پشیمان ہوئے ہیں نہ کبھی اس حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اپنایا بلکہ ہمیشہ ببانگِ دہل اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کرتے ہیں، ان کی یہی قربت ان کی بطور وزیر داخلہ تعیناتی کی بنیادی وجہ ہے۔

ان کی وزیر داخلہ کے طورپر تعیناتی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے کہ جب اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ملک بھر میں جلسے جلوسوں میں مصروف ہے اور آئندہ سال کے آغاز میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا ارادہ بھی رکھتا ہے تاکہ سینیٹ کے انتخابات سے قبل ہی کوئی دھماکا کردیا جائے، نئے پیدا ہوتے اس بحران سے نمٹنے کے لیے شیخ رشید حکومتی ٹیم کے نگران مقرر ہوئے ہیں۔

یوں توامنِ عامہ صوبائی معاملہ ہے اور وزرائے اعلیٰ ہی صوبائی پولیس کے نگران ہوتے ہیں مگر سندھ اورپنجاب میں رینجرز جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایف سی جیسے وفاقی ادارے بھی موجود ہیں جو وزارت داخلہ کے زیرانتظام آتے ہیں۔ 

لہٰذا وزارت داخلہ کا کچھ نہ کچھ کردار صوبائی سطح پر بھی موجود ہے، مرکز میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی، پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈائریکٹوریٹ اور نادراجیسے اداروں نے اِس وزارت کی اہمیت کو غیرمعمولی بنا رکھا ہے، اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ وزیرداخلہ غیرعلانیہ طورپر ڈپٹی پرائم منسٹر بن چکا ہے۔

تاریخی طور پر ملک فیروز خان نون ملک کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے بحیثیت وزیراعظم وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا، اُن کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے بطورصدر اورپھر بطور وزیراعظم اپنے سارے دور میں یہ قلمدان اپنے پاس رکھا۔

جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ابتدا میں یہ وزارت اپنے پاس رکھی اور پھر مختلف وقتوں میں کل وقتی وزیرداخلہ مقررکرتے رہے، ضیا کی وفات کے بعد مختصر جمہوری دورانیے اور اس کے بعد پرویز مشرف کے کم و بیش آٹھ سال میں مختلف وزرا ئے داخلہ مقرر ہوتے رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا توابتدا میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا، پھر کم و بیش آٹھ ماہ بعد جنرل مشرف دور کے سابق آئی بی چیف، بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو امورِ داخلہ کا وزیر بنایا، عمران خان مختلف حوالوں سے اعجاز شاہ سے ناخوش تھے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اعجاز شاہ اپنے تجربات کی روشنی میں بعض معاملات پروزیراعظم کو ایسے مشورے دیتے تھے جو انہیں ہرگز پسند نہ تھے۔ 

یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم نے کچھ عرصہ بعد اعجاز شاہ کے اختیارات کم کرتے ہوئے بیرسٹر شہزاد اکبر کو احتساب کا معاون خصوصی مقررکرکے وزارت داخلہ کے اہم ذیلی ادارے ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ وہ شہزاد اکبر کو رپورٹ کیا کرے، اعجازشاہ اس اہم وزارت کا بوجھ کم و بیش ایک سال اور چھ ماہ ہی اٹھا سکے اور انہیں تبدیل کرکے شیخ رشید کو وزیرداخلہ تعینات کر دیا گیا۔

شیخ رشید کی بطور وزیر داخلہ تعیناتی کے لیے کام کا آغاز نومبر میں شروع ہوا تھا، ابتدا میں اُنہیں وزارتِ اطلاعات کی پیشکش کی گئی تھی جس سے وہ انکاری تھے ،اب انہیں وزیر داخلہ تعینات کیا گیا ہے تووہ وزیرداخلہ کے ساتھ وزیر اطلاعات کے طورپر بھی کام کررہے ہیں، کوئی خبرنامہ اور کوئی ٹی وی ٹاک شو ایسا نہیں جہاں شیخ رشید کا چرچا نہ ہو۔ 

شیخ رشید کی بطور وزیرداخلہ تقرری سے تحریک انصاف حکومت کی کابینہ کے اندر بھی کچھ ارتعاش پیدا ہوا ہے، بعض وزراء احتجاج ریکارڈ تو نہیں کروا رہے مگرناقدانہ سرگوشیاں ضرورکررہے ہیں، شیخ رشید پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہ کیا جارہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے رکن نہیں اور یہ اہم ترین وزارت تحریک انصاف کے پاس ہی رہنی چاہیے تھی، تحریک انصاف کے معترضین یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ اُن کی جماعت اور شیخ رشید دونوں کے عملی سرپرست تو ایک ہی ہیں۔ پھر اعتراض کیسا؟

وزارت داخلہ کے پاس دس کے قریب کلیدی ادارے موجود ہیں مگر انٹیلی جنس کا کوئی آزاد ادارہ اس کی نگرانی میں کام نہیں کرتا، پیپلزپارٹی کے دور میں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیوروجیسے اداروں کو اس وزارت کے زیر انتظام لا کر اس وزارت کو مزید مستحکم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی تھی۔ 

اِس مقصد کے لیے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا مگر اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے دباؤ اور میڈیا میں بیٹھے کٹھ پتلی اینکروں کے شور کے باعث پیپلز پارٹی حکومت کو یہ فیصلہ 2 روز میں ہی واپس لینا پڑا، اب صورتحال یہ ہے کہ وزارت داخلہ عملی طور پر انٹیلی جنس معلومات ان انٹیلی جنس اداروں سے حاصل کرتی ہے جو اس کے زیرانتظام ہیں ہی نہیں۔

شیخ رشید کا چونکہ اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں سے پرانا تعلق ہے، اس لیے توقع یہی ہے کہ وہ وزارتِ داخلہ کو انٹیلی جنس معلومات کے حوالے سے مزید مستحکم کریں گے، شیخ رشید کی سیاسی زندگی میں ان کی حالیہ تقرری ان کی گزشتہ 15 وزارتوں کے مقابلے میں سب سے اہم ہے۔ 

ان کا اصل چیلنج سیاسی طور پر ان کے پی ڈی ایم سے نمٹنے کو تصورکیا جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا معاملہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات سے جڑا ہوا ہے، ظاہر ہے یہ معاملہ وزیرداخلہ کی بساط سے باہر ہے۔ 

اگر شیخ رشید ایف آئی اے اور سی ڈی اے کو کرپشن سے پاک کرکے متحرک بنانے، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو عوام کے لیے زیادہ متحرک کرنے ، اسلام آباد پولیس کے بجٹ میں اضافہ کرکے بااختیار بنانے، نادرا کا بورڈ تشکیل دے کر اس کی کارکردگی کو بہترکرنے، پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے سست کام کو تیز کرنے، نیکٹا کو جاندار بنا کرملک میں انتہاپسندی کے خلاف اس ادارے سے کام لینے میں کامیاب ہوگئے تو واقعی یہ ملک کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔ شیخ رشید کا اصل چیلنج ان اداروں کی اصلاح ہونا چاہیے نہ کہ اپوزیشن۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔