22 دسمبر ، 2020
عالمِ بالا
شریف ہاؤس
پیاری گڑیا بیٹی!
سلام و پیار:تمہاری دادی ’’آپا شمیم‘‘ کی زبانی زمینی حالات سے آگاہی ہوئی، تمہاری دادی اور دادا ’’ابا جی میاں محمد شریف‘‘ باؤ جی کی صحت کے بارے میں بہت فکرمند ہیں، دونوں اپنے تابع فرمان بیٹے کو طویل عمری کی دعائیں دیتے ہیں۔
عالمِ بالا میں لاہور جلسے کے بارے میں کافی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ ساتویں آسمان پر موجود نونی اُسے کامیاب اور انصافی اُسے ناکام قرار دیتے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے نون کے لاہوری کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے پورا زور لگا دیا، تمہاری ریلیاں بہت کامیاب رہیں، لاہوری جلسہ کے لئے مینارِ پاکستان کا انتخاب ایک سیاسی غلطی تھی، بہتر ہوتا کہ مال روڈ یا ناصر باغ کا انتخاب کیا جاتا۔
کارکنوں کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب جلسہ تھا مگر اُس میں عام عوام، ٹوٹی جوتیوں اور پھٹے کپڑوں والے بہت کم آئے۔ وجہ یہ ہے کہ تم اپنی تقریروں میں مستقبل کے خواب نہیں دکھا رہیں، تم نون کے ماضی اور انصاف کے حال کی بات کرتی ہو لیکن مستقبل میں کیا کرو گی؟ یہ خواب نہیں دکھا پاتیں۔ خواب کے بغیر لوگ جلسوں میں نہیں آتے، وہ ماضی کی کہانیاں سن تو لیتے ہیں مگر جدوجہد کا جذبہ صرف مستقبل کے خواب دکھانے سے پیدا ہوتا ہے۔
پیاری گڑیا!
میں نے جو تھوڑا عرصہ سیاست کی ہے، مجھے احساس ہوا کہ ہمارا حامی ہمیں ووٹ دیکر مطمئن ہو جاتا ہے، وہ جلسے جلوس اور مزاحمت کیلئے باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوتا، ہمارا ووٹر کھاتا، پیتا اور خوشحال بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے اِس لئے وہ سیاسی مقاصد کے لئے کوئی جسمانی تکلیف اُٹھانے پر تیار نہیں ہوتا۔ لاہور کا جلسہ البتہ اِس لحاظ سے کامیاب تھا کہ کارکنوں کی بھرپور شرکت رہی۔
لانگ مارچ میں ہمیں اِنہی متحرک کارکنوں کی ضرورت ہوگی، لانگ مارچ میں عام عوام ویسے بھی شامل ہی نہیں ہوتے، کارکن ہی سر دھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں، وہی کئی دن کا سفر اور پھر لمبے دھرنے کی تکلیف برداشت کر سکتے ہیں۔
نون لیگ کو لانگ مارچ کیلئے اپنے کارکنوں پر محنت کرنا ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ فیصلے کرتے وقت پارٹی کے اندرونی تضادات کے ساتھ ساتھ ووٹرز اور کارکنوں کے تحفظات کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔ جب تک اپنی خامیوں اور خوبیوں کا حقیقی ادراک اور تجزیہ نہ کیا جائے، درست پالیسی نہیں بن سکتی اور اگر اِس تجزیے کے بغیر پالیسی بنا بھی لی جائے تو اُس کی ناکامی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
گڑیا بیٹی!
تمہارا چیلنج یہ ہے کہ تم نے باؤ جی کے بیانیے کے ساتھ بھی چلنا ہے اور نون لیگ کے عمومی مفاہمانہ بیانیے کو بھی ساتھ چلانا ہے۔
نون لیگ کا عام ووٹر بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، وہ تجارت پیشہ ہونے کے پیشِ نظر پولیس، محکمہ جات اور اسٹیبلشمنٹ سے بنا کے رکھتا ہے، وہ تو کارپوریشن کے آبکاری انسپکٹر سے بھی لڑائی نہیں کرتا، وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمتی بیانیے پر کہاں چل سکتا ہے؟ ووٹر اپنے عمومی رویے کے برعکس اندرونی تضاد کا شکار ضرور ہے۔ اپنے مفاہمانہ رویے کے باوجود اُسے مزاحمتی بیانیے والا لیڈر نواز شریف پسند ہے۔
وہ سالہا سال سے اُسے ہی ووٹ دیتا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اُسے ہی ووٹ دے گا۔ مزاحمتی بیانیے کا تقاضا تو یہ تھا کہ نونی ووٹر کہیں نہ کہیں مزاحمت دکھاتا مگر ابھی تک اُس میں مزاحمت کی رمک تک نظر نہیں آئی جس سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ن کو احتجاجی تحریک کی بجائے الیکشن میں فائدہ ہے اسی لئے ن چاہتی ہے کہ گھیر گھار کر معاملات کو الیکشن کی طرف لے جایا جائے۔ دوسری طرف ریاست اور حکومت کو بھی علم ہے کہ الیکشن ہوا تو نون بھاری اکثریت سے جیت جائے گی اِسی لئے وہ اِس طرف آنے نہیں دے رہے۔ تم بھی لانگ مارچ اور استعفوں کے اعلان میں زور اگلے الیکشن پر دینا، ہماری فتح صرف الیکشن کے راستے سے ہی ممکن ہے۔
ابا جی بتا رہے تھے کہ پارلیمانی مشاورتی گروپ کے پانچ یا چھ سرکردہ ایم این اے تمہاری قیادت اور مزاحمتی بیانیے کو نہیں مان رہے، اُن کو ایک سابق وزیراعظم نے ’’کرنل گروپ‘‘ کا نام دیا ہے، یہ کرنل گروپ بالآخر تمہارے پیچھے آ کھڑا ہوگا، یہ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، یہ اُدھر جا ہی نہیں سکتے.
یہ سارے شہری حلقوں سے رکنِ قومی اسمبلی بنے ہیں، نون سے تھوڑا سا ہٹے تو اُن کا سیاسی نام و نشان تک مٹ جائے گا، ہاں اگر اُن میں کوئی موروثی الیکٹ ایبل ہوتا تو شاید وہ باغی ہو جاتا کیونکہ اُسے حلقے کی حمایت تو بہرحال حاصل رہتی مگر نون کے شہری ارکان قومی اسمبلی تو سرا سر نون کے ووٹ کے مرہونِ منت ہیں، یہ کہیں نہیں جائیں گے، بس دونوں طرف یقین دہانیاں کراتے رہیں گے۔
کل ہی کوئی بتا رہا تھا کہ عمران خان نے تمہارے مقابلے کیلئے فردوس عاشق اعوان کو پنجاب میں اطلاعات کا مشیر بنا کر بھیج دیا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ وہ تمہیں کبھی باکسنگ اور کبھی ریسلنگ کا چیلنج دے رہی ہے، اُس کے منہ نہ لگنا نہ ہی اُس کا کوئی جواب دینا وگرنہ وہ روزانہ تمہیں تنگ کیا کرے گی۔
چچا شہباز شریف سے ملاقاتیں کیسی رہیں؟ حمزہ کا حوصلہ تو قائم ہے؟ اُس کی چھوٹی بیٹی کا کیا حال ہے؟ شہباز شریف نے بڑی مستقل مزاجی سے باؤجی کا ساتھ دیا ہے۔ ابا جی اور عباس بھائی دونوں آج کل شہباز شریف کے صبر و تحمل اور وفاداری کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں۔
جب سے شہباز شریف کو جیل بھیجا گیا ہے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ سونا سونا لگتا تھا مگر تم نے اپنی جدوجہد سے اُس میں رنگ بھر دیا ہے، تم مسلم لیگ نون کی سینٹر اسٹیج پر آ چکی ہو، مقبول بھی ہو، اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ قدم پھونک پھونک کر رکھو۔ اپنی مقبولیت کو بھی قائم رکھنا ہے اور سیاسی اخلاقیات میں بھی برتری برقرار رکھنی ہے، اگر تو اگلے الیکشن تک تم نے اپنی اِس ساکھ کو برقرار رکھا تو اگلا الیکشن تمہارا ہے، تم جس امیدوار پر ہاتھ رکھو گی وہی جیتے گا۔
گڑیا بیٹی!
باقی یہاں پر سب خیریت ہے، چند دن پہلے قائداعظم محمد علی جناح کا میاں شریف، عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی اور ذوالفقار علی بھٹو کو پیغام آیا تھا کہ بھارت آج کل سرحدی علاقے پر شدید گولہ باری کر رہا ہے۔
سرحد پر شدید کشیدگی ہے، اِن حالات میں سیاسی کشیدگی کو کم کرکے اندرونی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ابا جی نے تو فوراً ہی ہاں کر دی مگر شرط یہ رکھی کہ 2021میں عام انتخابات کروا دیے جائیں اِس سے لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں کی نوبت نہیں آئے گی۔
سنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو خود قائداعظم سے ملنے گئے تھے، اُن کی آپس میں کیا بات چیت ہوئی؟ اُس کا علم نہیں ہو سکا تاہم اگلے ہی دن قائداعظم نے اکرام اللہ نیازی کو بلا کر کچھ ہدایات دیں، یہ بھی سنا ہے کہ جمہوریت پسند سابق جرنیلوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام بھیجا گیا ہے۔
توقع یہی ہے کہ لانگ مارچ کے دوران مذاکرات کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔
ابا جی تاکید کر رہے تھے کہ صفدر اپنی صحت کا خیال رکھے، وہ اپنی خوراک اور آمدورفت پر کنٹرول رکھے۔ میرے نواسے جنید صفدر کی ہارس رائیڈنگ کیسی جا رہی ہے؟ اُس کی منگنی توسیف الرحمٰن (قطر والے) کی بیٹی سے ہو چکی، شادی بھی جلدی کر دو سیاسی بکھیڑے تو چلتے رہتے ہیں، اِس ذمہ داری کو بھی نبھا دو۔ باقی تمہاری نواسی کی تصویر میں نے دیکھی ہے، بالکل تم پر گئی ہے، مجھے تو وہ چھوٹی سی گڑیا ہی لگی، بچپن میں تم بالکل ویسی ہی گول مٹول ہوتی تھیں۔
باؤ جی کو ابا جی نے خط لکھا ہے کہ ساری توجہ اپنے علاج پر رکھو۔ پاکستان واپس جانے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں، آپ بھی باؤ جی کو یہی کہنا۔ آخر میں کہنا یہ تھا کہ سیاست تحمل کا کام ہے، اپنا جارحانہ پن اور جذباتی پن کم کرو اور باؤ جی کی طرح ٹھنڈے دل و دماغ سے سیاست کی گتھیاں سلجھاؤ۔
والسلام تمہاری ماں کلثوم نواز
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔