02 جنوری ، 2021
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ درست تھا یا غلط ،لیکن وہ کیا تھا فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے، یہ دنیا کی تاریخ کی مشکل ترین (چونکہ اپنی سرزمین پر اپنے لوگوں کے خلاف لڑنی پڑی) اور پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے ۔
اس جنگ کو پاکستانی فوج دنیا کے سامنے اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے اور چونکہ یہ امریکا، القاعدہ اور دنیا کی شروع کردہ جنگ تھی ، جس میں پاکستان کودنیا کی خاطر شریک ہوکر میدان کارزار بنناپڑا، اس لئے ہماری ڈپلومیسی میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔
امریکا، یورپ اور باقی دنیا کے سامنے پاکستان کا کیس یہی ہے کہ وہ اس جنگ میں پاکستانی فوج اور قوم کی قربانیوں کو تسلیم کرے، لیکن عمران خان صاحب، جنہیں اب وزیراعظم کے منصب سے سرفراز کیا گیا ہے، بڑے فخر سےعالمی فورمز پر بھی کہتے ہیں کہ وہ اس جنگ کے خلاف تھے اور ہیں۔
اپنی کتاب میں انہوں نے اس جنگ کی جگہ جگہ پرزور مذمت کی ہے، کہیں لکھا ہے کہ یہ جنگ امریکی ڈالروں کے لیے لڑی گئی، کہیں لکھا ہے کہ امریکیوں کو خوش کرنے کے لیے فوج نے اپنے لوگوں پر بمباری کی، کہیں لکھا ہے کہ فوج کے مظالم اور بمباریوں کی وجہ سے پاکستان میں طالبان پیدا ہوئے۔
دوسری طرف اس جنگ میں فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی نے ہزاروں کارکنوں اور سینکڑوں رہنمائوں کی قربانی دی، اسفندیارولی خان سے لے کر ضلعی عہدیداروں تک نے خودکش حملوں کا سامنا کیا لیکن عمران خان کہہ رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ ہے اور وہ الزام لگارہے ہیں کہ پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کے ناطے اے این پی بھی فوج کو بدنام کرنے والوں میں شامل ہے۔
تین خود کش حملوں کا سامنا آفتاب احمد خان شیرپائو نے کیا ۔ ہر ایک میں وہ بال بال بچے ۔ ایک میں ان کے بیٹے مصطفیٰ بھی شدید زخمی ہوئے ۔ تاہم عمران خان کہتے ہیں کہ فوج میرے ساتھ اور ان کے نزدیک آفتاب شیرپائو بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کے ناطے فوج کوکمزور کرنے والوں میں شامل ہیں۔
جو جہادی تنظیمیں طالبان کا حصہ بنی تھیں،وہ زیادہ تر دیوبندی پس منظر کی حامل تھیں ۔ وہ مولانا فضل الرحمٰن پر دبائو ڈالتی رہیں کہ ان کے ساتھ جائیں لیکن مولانا ان کے مقابلے میں ریاست کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔ جن لوگوں کو طالبان پہاڑوں پر بلارہے تھے ، مولانا ان کو سیاست اور ریاست سے جوڑ رہے تھے۔ اس لئے مولانا ان کانشانہ نمبرون بنے ۔
ان پر تین خود کش حملے ہوئے ۔ ان کے گھر پر راکٹوں سے حملے ہوئے ۔ مولانا حسن جان سے لے کر مولانا معراج الدین تک ان کی جماعت کے درجنوں اکابرین خود کش حملوں میں شہید کئے گئے ۔
آج بھی خود حکومتی لوگ بار بار تھریٹ الرٹ جاری کررہے ہیں کہ مولانا کو ٹی ٹی پی کی طرف سے خودکش حملوں کا خطرہ ہے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ فوج میرے ساتھ ہے جبکہ وہ پی ڈی ایم کا سربراہ ہونے کے ناطے مولانا پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ فوج کو بدنام کررہے ہیں ۔
یہی معاملہ پیپلز پارٹی کا ہے ۔ ٹی ٹی پی کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں۔ پیپلزپارٹی اقتدار میں رہی یا اپوزیشن میں لیکن عمران خان کے برعکس اس جنگ میں فوج کی ہمنوا رہی تاہم اب عمران خان کہتے ہیں کہ فوج میرے ساتھ اور بقول ان کے پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کے ناطے پی پی پی فوج کو بدنام اور کمزور کررہی ہے ۔ میاں نواز پہلے گومگو کی کیفیت میں رہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اس جنگ کو اپنا لیا ۔
فوج کو ہر طرح کے وسائل فراہم کئے اور مکمل آزادی دی ۔ اتنی آزادی اور خودمختاری دی کہ ہم جیسے طالب علم معترض رہے ۔ اس لئے ان کی جماعت کے شجاع خانزادہ جیسے کچھ لوگ بھی نشانہ بنے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ فوج میرے ساتھ ہے اور نون لیگ فوج کو انڈیا کے اشارے پر کمزور کررہی ہے۔
یہ عجیب تماشہ ہے کہ فوج جو جنگ لڑ چکی اور لڑ رہی ہےاور جس کو اپنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتی ہے، اس جنگ میں اے این پی، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، قومی وطن پارٹی اور مسلم لیگ (ن) وغیرہ اس کے شانہ بشانہ کھڑی تھیںاور کھڑی ہیں ۔ اس جنگ میں عمران خان کل فوج کے ساتھ تھے اور نہ آج اس کا ذکر کرتے ہیں ۔
اس جنگ میں جبکہ یہ سارے لیڈر اور ان کے اہل خانہ خودکش حملوں کا نشانہ بن رہے تھے، عمران خان جلسے کررہے تھے اور دھرنے دے رہے تھے ۔ان کی جماعت کے کچھ لوگ ان کے ایما پر جان بخشی کے لئے طالبان کو بھتے دے رہے تھے۔شاید اس لئے ان کی طرف طالبان نے پتھر بھی نہیں پھینکا ۔
خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت آئی لیکن پھر بھی ان کی جماعت نہیں بلکہ اے این پی وغیرہ نشانے پر رہیں ۔ اب بھی عمران خان کی حکومت کی طرف سے ٹی ٹی ٹی پی کا جو تھریٹ الرٹ جاری ہوا ہے ،اس میں میاں افتخار حسین اور آفتاب شیرپائو کے نام تو ہیں لیکن شکرالحمدللہ عمران خان یا ان کی جماعت کے کسی وفاقی وزیر کا نام نہیں ۔ مولانا فضل الرحمٰن کو اس ٹی ٹی پی سے خطرہ ہے لیکن خود عمران کو نہیں۔
اب اس جنگ میں ، جو ہماری فوج کے بقول ٹی ٹی پی وغیرہ انڈیا اور این ڈی ایس کی سپورٹ کے ساتھ پاکستانی فوج کے خلاف لڑرہی ہے ، میں اے این پی فوج کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ نشانے پر بھی ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن اور آفتاب شیرپائو بھی شانہ بشانہ اور نشانے پر ہیں ۔
پیپلز پارٹی شانہ بشانہ رہی اور اب بھی اس کی قیادت نشانے پر ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے اون کیا اور فوج کے حوصلے اور اعتماد کو بڑھایا لیکن عمران خان کہتے ہیں اور شاید درست کہتے ہیں کہ فوج ان جماعتوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہے ۔
انہوں نے ہماری فوج پر کونسا جادو کررکھا ہے کہ وہ اپنی جنگ میں اپنے شانہ بشانہ جنگ لڑنے والوں کے ساتھ تو نہیں لیکن اس شخص کے ساتھ ہے جنہوں نے فوج کی اس تاریخی جنگ کو ہمیشہ غلط کہا اور فوج کی مخالف سمت میں کھڑے رہے ۔
اگر واقعی فوجی قیادت کسی جادو کے زیراثر نہیں تو پھر اسے قول اور عمل سے واضح کردینا چاہیے کہ وہ کسی ایک فرد یا جماعت نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ ہے اور اس کے ہیرو وہ لوگ اور جماعتیں ہیں جو اس تاریخی جنگ میں اس کے شانہ بشانہ رہےاور ہر طرح کی قربانی دی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔