09 جنوری ، 2021
بعض حوالوں سے ٹرمپ اور عمران بالکل متضاد شخصیت کے حامل ہیں، سب سے بڑا اور بنیادی فرق تو یہ ہے کہ ٹرمپ غیرمسلم جبکہ عمران خان مسلمان ہیں، وہ امریکی نیشنلسٹ بننے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ عمران خان ریاست مدینہ کا نام لے کر عالم اسلام اور مسلمانوں کا ہیرو بننے کی ۔
ٹرمپ اپنی دولت کے سہارے سیاست میں وارد ہوئے اور اپنی دولت کے زور پر اقتدار تک پہنچے، عمران خان کرکٹ کی بنیاد پر سیاست میں داخل ہوئے اور اپنا پیسہ جمع کرنے یا خرچ کرنے کی بجائے جہانگیر ترین وغیرہ کے پیسے سے سیاست میں آگے بڑھتے رہے۔
اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ ا سٹیٹس کوکی طاقتوں کو چیلنج کرکے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کے بغیر (ہاں البتہ یہودی لابی ان کے ساتھ تھی) اقتدار میں آئے جبکہ عمران خان کی سیاست اور اقتدار دونوں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے مرہون منت ہیں، یوں ان اور ان جیسے کئی حوالوں سے دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں، لیکن شخصی اور سیاسی حوالوں سے دونوں میں بعض عجیب مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
ذاتی مشترکات تو بہت ہیں لیکن ذاتی معاملات پر بات کرنا میرا شیوہ رہا ہے اور نہ آج اس کا ذکر کروں گا البتہ سیاسی مماثلتوں کا تذکرہ ضروری ہے، مثلاً ٹرمپ بھی اسٹیٹس کو توڑ کرنیا امریکا بنانا چاہ رہے تھے اور عمران خان کا نعرہ بھی نیا پاکستان ہے، ٹرمپ بھی یوٹرن لینے کے ماہر ہیں اور عمران خان بھی۔
ٹرمپ بھی اپنی خوبیوں کے بجائے مخالفین کی خامیوں کے تذکرے کی بنیاد پر حکومت کررہے تھے اور عمران خان بھی ایسا کررہے ہیں، ٹرمپ نے بھی ماضی کے امریکی صدور کی روایات توڑ یں اور عمران خان نے بھی۔
مثلاً ماضی کے صدور خود موبائل فون استعمال نہیں کرتے تھے لیکن ٹرمپ نے استعمال کرنا شروع کیا‘ یہی کام عمران خان بھی کر رہے ہیں بلکہ عمران خان تو غیرملکی سربراہان سے بات کرتے ہوئے بھی ریسیور کان سے لگاتے ہیں اور اسٹاف کی نوٹ ٹیکنگ کیلئے سپیکر آن نہیں رکھتے۔ ٹرمپ بھی ٹویٹر بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں اور عمران خان بھی اسی کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔
ٹرمپ بھی اپنی غلطی ماننے کی بجائے آئے روز وزیر مشیر تبدیل کرتے رہے اور عمران خان بھی وزیروں اور مشیروں کو بار بار تبدیل کرنے کو تبدیلی سمجھتے ہیں۔
لیکن دو بنیادی تباہ کن مشترکات یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکی روایات کو ہلا کے رکھ دیا جبکہ عمران خان نے پاکستان کی مشرقی روایات کو ۔ ٹرمپ کی شخصیت کے ان پہلوئوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کا واحد سپر پاور یا پھر لبرٹی اور جمہوریت کی علامت امریکہ آج دنیامیں تماشہ بن گیا ہے۔ اگلے روز ٹرمپ کے حامیوں نے پارلیمنٹ پر جس طرح حملہ کیا ، اس نے امریکی جمہوریت کے چہرے پر کالک مل دی ۔تاہم امریکہ میں چونکہ ادارے مضبوط ہیں اسلئے معاملہ کنٹرول ہوا۔
خود ٹرمپ کی جماعت کے سابق صدر بش اور سینیٹ اور کانگریس کے ارکان ٹرمپ کے خلاف کھڑ ےہوگئے کیونکہ وہاں خوشامد کا وہ کلچر نہیں جو ہمارے ہاںپایا جاتا ہے ۔
چنانچہ امریکہ میں معاملہ آگے بڑھنے سے رک گیا لیکن نیا امریکہ بنانے کی مشق میں ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران امریکی سوسائٹی میں جو زہر بھر دیا ہے، اب اس کو ختم کرنے میں جوبائیڈن جیسے پرانے امریکا کے پرانے سیاستدانوں کو بڑے جتن کرنا ہوں گے۔ لیکن پاکستان میں تو نہ جمہوری ادارے مضبوط ہیں، نہ ان کی پارٹی کے اندر کوئی ان کے سامنے زبان کھول سکتا ہے۔
ہماری فالٹ لائنز پہلے سے بھی گہری ہیں‘ یہ بھی ضروری نہیں کہ عمران خان کے بعد پاکستان میں کوئی جوبائیڈن جیسا سمجھدار سیاستدان حکمران بنے۔ اس لئے میں حیران ہوں کہ یہاں سوسائٹی میں پھیلائی جانے والی نفرتوں اور پولرائزیشن کا کیا انجام ہوگا؟
ایک اور قدر مشترک ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی یہ ہے کہ دونوں انسانی حوالوں سے نہایت سنگدل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سفاکیت کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے میںآیا جب امریکہ میں ایک سیاہ فام امریکی کو پولیس نے قتل کیا۔ ٹرمپ کا یہی رویہ رہا کہ سیاہ فام امریکی اگر احتجاج کرتے ہیں تو کرنے دیں۔
عمران خان کی اس بے رُخی کو ملاحظہ کرنا ہو تو کوئٹہ میں دھرنا دینے والے ہزارہ کے مظلومین سے متعلق ان کا رویہ دیکھ لیجیے، پانچ دن گزر گئے، وہ لوگ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں رکھے کوئٹہ کی ٹھٹھرٹی سردی میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ حکومت کے مخالف بھی نہیں۔ ان کی نمائندہ جماعت بلوچستان حکومت کا حصہ ہے جبکہ گلگت میں بھی ان کی حامی جماعت عمران خان کی پارٹی کے ساتھ ہے۔
اب ہزارہ مظلومین کے قائد نے قرآن پاک سر پر رکھ کر عمران خان سے آنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کی بے حسی ملاحظہ کیجئے کہ کبھی اپنے وزرا سے ملتے ہیں، کبھی ترک فنکاروں سے ملاقاتیں کرکے ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں لیکن ان کے پاس جانے سے گریزاں ہیں۔
چار دن اپنے ترجمانوں سے کہلواتے رہے کہ سیکورٹی کلیئرنس نہیں ہے لیکن جب مریم نواز، بلاول بھٹو، سراج الحق اور غفور حیدری وغیرہ ان کے پاس گئے اور یہ بہانہ مزید کام نہیں آرہا تو اب اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے۔ پتہ چلا کہ ان کی انا اور ضد آڑے آرہی ہے اور حد یہ کردی کہ مظلومین پر بلیک میل کرنے کا الزام دھر دیا۔ ہزارہ کے مظلومین کہتے ہیں کہ وزیراعظم آئیں گے تو وہ لاشیں دفن کریں گے اور عمران خان کہتے ہیں کہ وہ لاشیں دفن کریں گے تو میں جائوں گا ۔
اب یہ بے حسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ریاست مدینہ کا انہیں شعور ہے اور نہ بنانے کا کوئی ارادہ کیونکہ ریاست مدینہ کے حاکم تو دریائے فرأت کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے لئے بھی اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے پرانے پاکستان میں جب ان لوگوں نے ایسا دھرنا دیا تھا تو نہ صرف اس وقت کے وزیراعظم ان کے پاس گئے تھے بلکہ ان کی خاطرپیپلز پارٹی نے اپنے وزیراعلیٰ کو ہٹا کر گورنر راج لگا دیا تھا۔
مسلم لیگ ق ہو یا کوئی اور اتحادی، جب وہ آپ کو بلیک میل کرتے ہیں تو آپ ان کے پاس جا کر قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن یہ مظلومین آپ کو کیا بلیک میل کریں گے؟
خدا کا واسطہ ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو انہیں بلیک میلر کہہ کر ان کے زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں اور ہاں یاد رکھیں،ان کی ٹیم میں تو کوئی نصیحت یا تنقید کرنے کی جرات نہیں کرسکتا لیکن مولانا طارق جمیل عمران خان کو سمجھائیں کہ انا پرستی اور بے حسی کا انجام بہت برا نکلتا ہے۔ خان صاحب اس معاملے کو اسی طرح ڈیل کرتے رہے تو ایک نہ ایک دن ان کو یہ کام کرنا پڑے گا لیکن تب تک بہت نقصان ہوچکا ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔