بلاگ
Time 23 جنوری ، 2021

یہ انصاف نہیں!

فوٹو: فائل

براڈ شیٹ معاملہ پر تحقیقات کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی ہے وہ انصاف کے تقاضوں پر کسی بھی طرح پوری نہیں اُترتی، عدل و انصاف غیر جانبداری کا تقاضا کرتا ہے اور اُس کا کم از کم معیار یہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ 

تحقیقاتی کمیٹی کے لیے جن فاضل جج جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کا نام دیا گیا ہے وہ پانامہ کیس کے فیصلے میں بھی شریک تھے اور شریف خاندان کو اُن کے حوالے سے کئی تحفظات ہیں، ایسے میں اُنہیں تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنا کر اُن سے فیصلہ کروانا نہ تو انصاف ہوگا اور نہ اُسے شفاف کہا جا سکتا ہے۔

جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کی شہرت قابل اور فاضل جج کی ہے مگر حسین نواز شریف اپنے ملاقاتیوں کو وہ کاغذ دکھاتے ہیں جس میں ریٹائرڈ جج صاحب نے نیب کے ساتھ کام کرنے کے دوران شریف خاندان کے خلاف تحریری تبصرے لکھ رکھے ہیں۔ 

شریف خاندان کے حامی فاضل جج صاحب پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے لئے جو لوگ اکٹھے کیے گئے تھے وہ سارے کے سارے شریف خاندان کے سیاسی مخالف تھے اور اُن سب کے نام انہی فاضل جج صاحب کی مشاورت سے طے پائے تھے اور اُنہی کے کہنے پر بجائے ریگولر کال کے واٹس ایپ کے ذریعے متعلقہ افراد سے بات کی گئی۔ 

اُس کے علاوہ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران بھی بہت سے ایسے واقعات، اشارے اور پیغامات مشہور ہوتے رہے جن میں فاضل جج صاحب کا نام آتا رہا اور اِس معاملے میں اُن کا کردار متنازعہ رہا۔ 

تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے ایسے شخص کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنانا سراسر ناانصافی ہے جس کا کردار پہلے ہی سے متنازعہ ہے اور ایک فریق یعنی شریف خاندان اُنہیں غیرجانبدار نہیں سمجھتا، حکومت کو چاہیے کہ فوراً اِس فیصلے پر نظرثانی کرے اور اِس کمیٹی کی سربراہی کسی اور کو سونپے تاکہ پہلے ہی دن سے تحقیقاتی کمیٹی کو جو متنازعہ رنگ مل رہا ہے، وہ ختم ہو۔ 

دوسرا معاملہ فاضل جج صاحب کا ہے، اُنہیں خود ہی ایسی کمیٹی کی سربراہی قبول نہیں کرنی چاہیے کہ جج صاحب پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کو اعتراض ہوگا کیونکہ وہ خود نیب کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، لہٰذا وہ نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان معاہدے کی غلطیوں کا غیرجانبداری سے کیسے جائزہ لے سکتے ہیں؟ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اِن اعتراضات اور اپوزیشن کے تحفظات کو مدِنظر رکھتے ہوئے خود جج صاحب حکومت سے معذرت کر لیں اور کسی اور منصف کو موقع دیں۔ 

اگر فاضل جج صاحب اِس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ رہے تو جہاں اُن کے موجودہ کردار پر سوال اٹھے گا وہاں ماضی کی راکھ میں دبے ہوئے پانامہ کیس کے کئی سربستہ راز بھی کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔

پاکستان میں انصاف کے ایوانوں سے عوامی توقعات ویسے بھی کم ہی پوری ہوئی ہیں، جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے تک بہت سے ایسے مراحل آئے ہیں جب عدلیہ نے شفاف انصاف کی بجائے طاقت کے حق میں اپنے ترازو کو جھکا دیا اور یوں عدل و انصاف اور معیار و وقار کے زوال کا باعث بنتی رہی۔ 

براڈ شیٹ معاملہ ایک فروعی معاملہ ہرگز نہیں، یہ کرپشن ایشو ہی کا ایک حصہ ہے اور اِس میں احتساب کرنے اور احتساب ہونے والے دونوں کے کرداروں کا تجزیہ اور ہر ایک کا رول سامنے آ جائے گا، اب جبکہ عدلیہ آزاد ہے، ملک میں جمہوریت ہے، بظاہر عدلیہ اور حکومت پر کوئی دبائو نہیں، ایسے میں عدلیہ کو خود آگے بڑھ کر ماضی کے داغوں کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے اور براڈ شیٹ کے معاملے کی ایسی شفاف تحقیقات کرنی چاہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے، لوگوں کو پتہ چلے کہ احتساب کے نام پر اصل میںکیا ہوتا رہا ہے اور کون ہے جو قصور وار ہے؟

تضادستان کا مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ موسم کی بڑھتی دھند کے ساتھ، سچ بھی دھند کی لپیٹ میں ہے، نیب اور احتساب کے ادارے اپوزیشن کو کرپٹ قرار دیتے ہیں، سپریم کورٹ نے پانامہ مقدمے میں نواز شریف کو نااہل قرار دے رکھا ہے، جبکہ شریف خاندان کے حامی برسرعام یہ کہتے ہیں کہ اُنہیں پانامہ میں نہیں اقامہ رکھنے پر سزا ملی ہے اور اُن کے وکلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقامہ کا معاملہ مقدمہ کی سماعت کے دوران کبھی زیر بحث ہی نہیں آیا۔ 

زرداری خاندان پر نیب یا احتساب کے جتنے بھی ریفرنسز یا مقدمات درج کروائے گئے، ہر ایک معاملے میں عدالتوں نے اُنہیں بری کیا، گویا اگر حکومت کے پاس الزامات کی ایک لمبی فہرست ہے تو اپوزیشن کے پاس اپنے دفاع کا بھی وسیع ذخیرہ موجود ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ تنازعات کا فیصلہ کرنے والا فریق یعنی عدلیہ بےشمار فیصلے کرنے کے باوجود سچ کے گرد لپٹی دھند کو صاف نہیں کر سکا، اب بھی احتساب اور انصاف کے حوالے سے سوالات، اعتراضات اور تحفظات پوری طاقت سے موجود ہیں، براڈ شیٹ معاملہ وزیراعظم عمران خان کے لئے ایک نادر موقع تھا کہ وہ ایک صاف، شفاف اور غیرجانبدار انکوائری کرکے حق اور سچ کو سامنے لاتے لیکن اُنہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کو متنازعہ بنا کر پہلے ہی دن سے اُس کے کام کو جانبدارانہ رنگ دے دیا ہے۔

اپوزیشن کے حامی تو پہلے ہی دن اُسے متنازعہ قرار دے دیں گے بلکہ اپوزیشن کو موقع مل جائے گا کہ وہ احتساب، پانامہ کیس اور براڈ شیٹ کا نام لے کر حکومت کو ہدفِ تنقید بنائیں گے۔

تضادستان میں سیاست اور عدلیہ کو الگ کرنا شروع ہی سے مشکل رہا ہے، اِس لیے عدلیہ کے سیاسی کردار پر سوال اٹھنا لازم ہے، جب سے نئی اور آزاد عدلیہ تشکیل پائی ہے اُس وقت سے اِس پر اعتراضات بھی بڑھ گئے ہیں، جسٹس افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی، آزاد عدلیہ کی کامیابی تھی، توقع تھی کہ آزاد عدلیہ توقعات پر پورا اترتے ہوئے کم از کم ملک میں شفاف انصاف کی بنیاد رکھ جائے گی مگر جسٹس افتخار چودھری ہی کے زمانے میں یہ ظاہر ہو گیا کہ عدلیہ شخصی معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے اور ادارہ جاتی اصلاح کی طرف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔

فاضل چیف جسٹس ثاقب نثار اور کھوسہ صاحب کے ادوار ہنگامہ خیز اور سیاسی طور پر شدید متنازعہ رہے، پانامہ فیصلے کے ذریعے عوام کی بھاری اکثریت سے منتخب کردہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ 

اِن سیاسی فیصلوں کے نتائج سے ملکی سیاست اوپر نیچے ہو کر رہ گئی اور یوں اِس سیاست کے چھینٹے عدلیہ کی سفید چادر پر کئی داغ ڈال گئے، براڈ شیٹ معاملہ عدلیہ، حکومت اور عوام کے لیے نیا موقع ہے کہ وہ اِس معاملے میں غیرجانبدارانہ، شفاف اور منصفانہ انکوائری کروا کے نہ صرف ماضی کے داغوں سے نجات حاصل کریں بلکہ ایک دفعہ ہمیشہ کے لیے سچ کو دھند سے نکال کر لوگوں کے سامنے آشکار کریں۔ 

اگر اِس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر ہم ماضی کی طرح احتساب کی صرف رٹ ہی سنتے رہیں گے، ہم اِس معاملے پر اصلی اور حقیقی نتیجے تک کبھی پہنچ نہیں پائیں گے۔ حالانکہ تضادستان کے مجبور اور مقہور عوام کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بھی باقی دنیا کی طرح اصل سچ تک رسائی حاصل کریں۔ 

سچ اِس لیے جاننا بھی ضروری ہے کہ عیاں ہو جائے کہ1985سے لے کر اب تک کے 35سال میں کون کرپٹ تھا، کون احتساب میں مخلص تھا اور کس نے احتساب کو صرف سیاسی مخالفین کے خلاف حربے کے طور پر استعمال کیا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔