اصل سوال کیا ہے؟

فوٹو: فائل

سیاست کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی؟ علمِ غیب تو صحافی یا عام آدمی کے پاس ہوتا نہیں چنانچہ وہ دو جمع دو یعنی چار اور بعض اوقات دو جمع دو چار کی بجائے پانچ کے اندازے لگا کر تجزیے کرتا ہے مگر اصل سوال کے جواب تک پہنچنا مشکل ہے۔

ابھی چند دن پہلے ایک اہم سیاسی رہنما نے قصہ سنایا کہ جنوبی پنجاب کے رکنِ اسمبلی عظمت علی مامیکا (فرضی نام) اپنے ڈیرے پر پریشان اور سنجیدہ بیٹھے تھے، کسی نے پوچھا جناب کیا پریشانی ہے؟ تو مامیکا صاحب نے کہا سمجھ نہیں آ رہی، اگلی حکومت کس کی ہو گی؟ اُس پر وہاں موجود منشی اللہ دتہ نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں عرض کروں؟  مامیکا صاحب نے اجازت دی تو منشی اللہ دتہ نے کہا بات تو صاف ہے، ’’نون لیگ کو اُنہوں نے نہیں آنے دینا اور تحریک انصاف کو عوام نے نہیں آنے دینا‘‘۔ 

مامیکا نے منشی اللہ دتہ کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا اور کہا کیا مطلب؟ منشی اللہ دتہ نے کہا صاف بات ہے کہ نون لیگ کے معاملات، اسٹیبلشمنٹ سے ٹھیک نہیں ہو رہے اس لئے اُس کے اقتدار میں آنے کا فی الحال امکان نہیں ہے اور دوسری طرف عوام موجودہ حکومت کی نااہلیوں، مہنگائی اور بیروزگاری سے اِس قدر پریشان ہیں کہ اگر اُنہیں موقع ملا تو وہ موجودہ حکومت کو دوبارہ اقتدار میں نہیں لانا چاہیں گے۔

اصل سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں نہیں تو پھر اگلی حکومت کس کی ہوگی؟ پیپلز پارٹی کو یہ چانس فی الحال ملنا ممکن نہیں۔ منشی اللہ دتہ کا قصہ سنانے والے سیاسی رہنما نے کہا جو کام ماضی میں ایک سو بار ہو چکا ہے وہی اِس بار بھی ہو گا، آخر اِس بار ویسا کیوں نہیں ہوگا؟ اور پھر اُس رہنما نے کہا کہ سب سے پہلے تو پارٹی کے اندر سے ابال پیدا ہوتا ہے اور پھر پارٹی کے اندر اور باہر کی پارٹیوں سے ملا کر ایک نئی حکومت بآسانی بنا لی جاتی ہے، اب بھی ایسا ہوگا۔ 

اُس رہنما کا خیال تھا کہ تبدیلی میں چھ، آٹھ ماہ لگیں گے، فی الحال تحریک انصاف کی حکومت اپنی تمام تر نااہلیوں اور غلطیوں کےباوجود قائم رہے گی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی کمزوریاں سامنے آتی رہیں گی اور چھ سات ماہ بعد اِنہی کمزوریوں کے ساتھ حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا اور ایک بار پھر وہی ہوگا جو ماضی میں بار بار ہوتا رہا ہے یعنی کچھ لوگ پارٹی کے اندر سے لائے جائیں گے، کچھ لوگ باہر سے شامل ہوں گے، بھان متی کا ایک کنبہ تشکیل پائے گا جو حکومت کی چھٹی تو کرا دے گا لیکن خود یہ بھی لمبی حکومت نہیں چلا سکے گا اور معاملہ پھر الیکشن کی طرف ہی جائے گا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ انصاف اور غیرجانبداری کا نقاب ہٹا کر جانبداری کی طرف بڑھ گئی ہے؟ تحریک انصاف اڑھائی سالہ دور میں بار بار یہ کہتی رہی کہ احتساب کے تمام مقدمات پچھلی حکومتوں کے قائم کردہ ہیں اور مقدمات چلانے والا نیب ایک خود مختار ادارہ ہے، اِس لئے حکومت کا اُس پر کوئی اثر و رسوخ نہیں۔ 

حکومت کے اِن دعوئوں میں مکمل سچ نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور تھی تاہم حکومت نے براڈ شیٹ پر تحقیقاتی کمیٹی کا جو فیصلہ کیا ہے وہ واضح طور پر جانبدارانہ فیصلہ ہے، یک رکنی کمیٹی کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج شیخ عظمت سعید کو سونپی گئی ہے جن کے جے آئی ٹی کی تشکیل اور نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے میں کردار پر نون لیگ کو شدید تحفظات ہیں، اِسی لئے نون لیگ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر جسٹس شیخ عظمت سعید تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی سے الگ نہ ہوئے تو اُن کے خلاف موجود مواد سامنے لایا جائے گا۔

 نون لیگ پہلے ہی سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس شیخ عظمت سعید کے کردار پر انگلی اٹھا رہی ہے، وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے لکھے گئے ایک خط کا حوالہ بھی دیتی ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے جسٹس شیخ عظمت سعید کے ایک خاتون کی پروموشن کے فیصلے پر ریمارکس پر سخت نوٹس لینے کو کہا تھا۔

 شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ جیلوں کی کوٹھڑیاں خالی ہیں جن میں حکمران بند ہونے چاہئیں۔ نواز شریف اُس وقت وزیراعظم تھے۔ اُنہوں نے ان ریمارکس پر باقاعدہ احتجاجی خط چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا مگر چیف جسٹس نے اُس خط پر نہ کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی وزیراعظم کو اُس خط کا جواب دیا، بعد ازاں یہی جج پانامہ کیس میں نواز شریف کے منصف بنے اور باقی تو تاریخ ہے کہ کس طرح پانامہ کیس میں نواز شریف نااہل ٹھہرے، ان کی حکومت اور وزارتِ عظمیٰ سے چھٹی ہو گئی اور جج صاحب کے ریمارکس کے عین مطابق اُنہیں جیلوں کی کوٹھڑیاں بھی دیکھنا پڑیں۔

یہ افواہ بھی مشہور ہے کہ پانامہ مقدمے کے دوران کئی اتار چڑھاؤ آئے، ایک طرف نواز شریف کو یقین تھا کہ اُن کے خلاف کچھ ایسا مواد نہیں ہے کہ اُنہیں لائقِ تعزیر ٹھہرایا جائے۔ نواز شریف کے وکیل اور ان کے ایک قریبی ترین رفیق کو بھی یہی یقین تھا مگر دوسری طرف نواز شریف کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اگر وہ وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر عام شہری کی حیثیت سے عدالت کے سامنے پیش ہوں تو اُن کا مقدمہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ 

کہا جا رہا ہے کہ اگر براڈ شیٹ انکوائری کے جج کو تبدیل نہ کیا گیا تو پھر پانامہ مقدمے کے کئی چھپے ہوئے راز بھی کھل کر سامنے آئیں گے اور یوں جس انصاف اور احتساب کو عمران خان اور اُن کی حکومت غیرجانبدارانہ اور منصفانہ قرار دیا کرتی تھی الزامات سامنے آنے کے بعد اُنہیں غیرجانبدارانہ قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔

اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ سوال ہی کیوں پیدا ہو رہا ہے کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی؟ کیونکہ یہ حکومت چلتی نظر نہیں آ رہی۔ قومی اسمبلی کی کارروائی نظر نہیں آ رہی، حکومت اور اپوزیشن کارروائی چلانے کے لئے مل بیٹھنے کو تیار نہیں، حکومت گرفتار ارکانِ اسمبلی کو اسمبلی کے اجلاس میں بلانے پر آمادہ نہیں۔ اپوزیشن حکومتی مرضی کی قانون سازی پر آمادہ نہیں، گورننس پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں، کوئی بڑا منصوبہ نہ زیر غور ہے نہ زیر تعمیر۔ معاشی حالات بتدریج بہتر ہوئے ہیں لیکن کسی بڑے معاشی انقلاب کی توقع نہیں۔ 

حکومت نے بےروزگاری ختم کرنے اور اربوں ڈالر واپس لانے کے جو وعدے کئے تھے اُن کے پورا ہونے کی امید نہیں۔ پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا حکومت شاید چند ہزار مکان تو بنائے، اُس سے زیادہ کا امکان نہیں۔ اگلے اڑھائی سال حکومت عوام کو کن وعدوں میں الجھائے گی اور کون سے وعدے وفا کرے گی؟ یوں لگتا ہے کہ حکومت کے پاس نئے آئیڈیاز ختم ہو چکے ہیں اور وہ ہاتھ پہہاتھ دھرےبیٹھی یہ جاننا چاہ رہی ہے کہ اصل سوال کیا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :