Time 01 فروری ، 2021
پاکستان

یکم فروری 2002 کو قتل ہونے والے ڈینئل پرل کے کیس میں کب کیا ہوا؟

ڈینئل پرل وال اسٹریٹ جرنل ساؤتھ ایشیا کے بیورو چیف تھے اور اُن دنوں بھارت میں مقیم تھے، وہ ایک برطانوی شہری رچرڈ ریڈ المعروف ’شو بومبر‘ اور القاعدہ کے درمیان تعلقات کی تحقیقات کے لیے کراچی آئے تھے— فوٹو: فائل

ڈینئل پرل قتل کیس کے گرفتار ملزمان کو سپریم کورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا ہے، احمد عمر سعید شیخ سمیت چاروں ملزمان کی گرفتاری امریکی صحافی کے اغوا اور قتل کے بعد عمل میں آئی، کیس کئی جید پولیس افسران کے ہاتھوں تفتیش کے مراحل سے گزرتا رہا اور کئی تفتیشی افسران کے باعث تاریخی اور سنگین غفلتیں ہوئیں جس سے ملزمان اعلیٰ عدالت سے رہا ہوگئے۔

امریکی ریاست نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے مقتول صحافی ڈینئل پرل کو 23 جنوری 2002 کو کراچی کے موجودہ ریڈ زون سے اغوا اور  یکم فروری کو گلشن معمار میں قتل کیا گیا۔

ڈینئل پرل وال اسٹریٹ جرنل ساؤتھ ایشیا کے  بیورو چیف تھے اور اُن دنوں بھارت میں مقیم تھے،  وہ ایک برطانوی شہری رچرڈ ریڈ المعروف ’شو  بومبر‘ اور القاعدہ کے درمیان تعلقات کی تحقیقات کے لیے کراچی آئے تھے۔

انھیں کراچی سے اغوا کیا گیا اور پھر پر تشدد طریقے سے قتل کردیا گیا، اس کیس کے ماسٹر مائنڈ احمد عمر سعید شیخ عرف مظفر فاروق عرف شبیر عرف امین کو ڈینئل پرل کے اغوا کے 11 روز بعد 12 فروری 2002 کو لاہور سے گرفتار کیا گیا۔

اس کیس کے ماسٹر مائنڈ احمد عمر سعید شیخ عرف مظفر فاروق عرف شبیر عرف امین کو ڈینئل پرل کے اغوا کے 11 روز بعد 12 فروری 2002 کو لاہور سے گرفتار کیا گیا— فوٹو: فائل

اس کے دیگر ساتھی ملزمان میں فہد نسیم احمد، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل شامل تھے، ملزمان کی گرفتاری ایس ایس پی ریٹائرڈ فاروق اعوان نے کی تھی جبکہ ڈینئل پرل کی لاش کو اغوا کے ساڑھے 4 مہینوں بعد سابق سی ٹی ڈی افسر فیاض خان نے گلشن معمار سے برآمد کیا تھا۔

اس کیس کی تفتیش سابق ریٹائرڈ  ڈی آئی جی سی آئی اے منظور احمد مغل نے کی تھی جس کی براہ راست سربراہی اس وقت کے آئی جی سندھ کمال شاہ کر رہے تھے۔

واردات کا مقدمہ غیر معمولی طور پر 12 روز بعد درج کیا گیا جس میں پہلے تو اغوا سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں تاہم بعد میں تفتیش کے دوران قتل، سازش، انسداد دہشتگردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں۔

 اس سلسلے میں جیو نیوز نے موجودہ اور سابق اعلیٰ حکام سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن براہ راست کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوا، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اعلیٰ حکام نے بتایا کہ تفتیش کے دوران سنگین غفلتیں برتی گئی ہیں، سب سے سنگین غفلت یہ تھی کہ مقتول صحافی ڈینئل پرل کی لاش برآمدگی کو ہی اس مقدمے میں شامل نہیں کیا گیا جو ڈینئل پرل کے اغوا کا تھا۔

 مقدمے کے اندراج میں غیر معمولی 11 روز کی تاخیر کی گئی، استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ شریک ملزمان سلمان ثاقب اور فہد نسیم نے رضاکارانہ طور پر اقبال جرم کیا تھا، پراسیکیوشن یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ عمر احمد شیخ کی جانب سے بھیجی گئی ای میل اصلی تھی، ملزمان کی شناخت پریڈ قانون کے مطابق نہیں کروائی جاسکی اور نجی گواہان نمبر 1 اور 6 نے ملزمان کا حلیہ نہیں بتایا۔

استغاثہ اس ہائی پروفائل کیس میں سازش کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا، استغاثہ نے نجی گواہ نمبر 10 غلام اکبر کو لکھاوٹ کے ماہر کی حیثیت سے پیش کیا جس نے اپنے بیان میں اس سے انکار کیا کہ ان کے پاس دستی تحریر کے ماہر سے متعلق کوئی ڈگری ہے۔

موجودہ پولیس قیادت یہ سمجھتی ہے تفتیش میں یہ وہ سنگین غلطیاں ہیں جن کے باعث ان ملزمان کو سپریم کورٹ نے رہا کیا، اس کیس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ امریکی حراست میں موجود القاعدہ رہنما خالد شیخ محمد نے 2007 میں ملٹری کورٹ میں ڈینئل پرل کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

خالد شیخ محمد کو امریکا میں ٹوئن ٹاورز پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا جاتا ہے اور اسے یکم مارچ 2003 کو امریکا اور پاکستان کے حساس اداروں نے راولپنڈی سے گرفتار کیا تھا۔

مزید خبریں :