بلاگ
Time 02 فروری ، 2021

تعمیر یا تخریب؟

فوٹو: فائل

کھوکھر پیلس لاہور اور خواجہ آصف کی سیالکوٹ ہاؤسنگ اسکیم کا دفتر گرتے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں، نہ ہماری کوئی منزل ہے اور نہ کوئی مقصد۔

یادش بخیر 13سال پہلے 2008 میں شہباز شریف پنجاب کے حکمران تھے اور جسٹس خلیل رمدے عدالتِ عظمیٰ کے منصف، اُس زمانے میں جسٹس رمدے نے لاہور کی بلند و بالا عمارتوں اور پلازوں کو گرانے کا حکم دیا۔ 

وزیراعلیٰ شہباز شریف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کرینوں اور بلڈوزروں کو بھیج کر بڑے بڑے پلازوں کو گرانا شروع کردیا، لوگ سربفلک عمارتوں کو ٹوٹتا دیکھتے تو تالیاں بجاتے، غریب اور بےکس سمجھتے کہ محل اور پلازے گرنے کا مطلب ہے کہ امیروں کی طاقت اور غرور ٹوٹ رہا ہے۔ 

اُسی زمانے میں ایک اہم مسلم لیگی رہنما نے اونچی عمارتوں کو گرانے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی کچھ تعمیر نہیں کر پائے لیکن امیروں کی عمارتوں کی تخریب سے ہم غریبوں اور ناداروں کو خوش کر رہے ہیں بلکہ اُس لیڈر نے کہا کہ غریب اور بےکس پلازے ٹوٹنے پر جو تالیاں بجاتے ہیں وہ دراصل ہمارے لیے داد ہے۔ 

اُس فلسفے کے مطابق آپ مروجہ نظام کو تو توڑ نہیں سکتے مگر چند اینٹیں اور کنکریٹ توڑ کر آپ غریبوں کا کتھارسس کر دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جب عام شکل و صورت کا ہیرو سلطان راہی دیہاتی لباس تہبند اور کرتا پہنے ہوئے مولا جٹ بن کر ظالموں کو مارتا تو سینما میں اگلی نشستوں پر بیٹھنے والے غریب خوشی سے نعرے مارتے ، وہ بھی کتھارسس ہوتا تھا۔ 

عمران خان کی حکومت میں وہی عمل دوبارہ شروع کردیا گیا ہے، شاید ایک بار حکومت کے حق میں تالیاں بجوانا مقصود ہے یا پھر مہنگائی اور بےروزگاری میں غریب عوام کا کتھارسس کیا جارہا ہے۔ 

یہ دائروں کا سفر ہے، واقعی احتساب ہے، سیاسی تماشا ہے، کتھارسس ہے یا کچھ اور، یہ زیادہ دیر چلنے والا نہیں، 13سال پہلے شہباز شریف اور جسٹس رمدے نے جو عمارتیں گرائی تھیں اُن میں سے اکثر 13سال بعد وہیں، اُسی حالت میں ٹوٹی پھوٹی کھڑی آنسو بہا رہی ہیں، مجھے یاد ہے کہ 13سال پہلے شروع شروع میں تو پلازے گرنے پر تالیاں بجیں مگر جلد ہی حقیقت کھل کر سامنے آنے لگی کہ تعمیر، تخریب سے بہتر ہے۔ 

آپ بعض اوقات تخریب سے تالیاں بجوا لیتے ہیں مگر یہ وقتی فائدہ ہوتا ہے، دور رس فائدہ صرف تعمیر کا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کے بعد شہباز شریف نے کبھی عمارتیں گرائی نہیں بلکہ بنائیں، عمران خان کیلیے بھی چند دن تو داد و تحسین کے ڈونگرے برسیں گے مگر پھر یہ تلخ تاہم حقیقی مثال سامنے آکھڑی ہوگی کہ تعمیر بہتر یا تخریب؟

احتساب ہو، تجاوزات کو گرانے کا مسئلہ ہو، سرکاری زمینوں پر قبضے کا معاملہ، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا مدعا ہو یا پھر ظالموں کی طاقت توڑنی ہو تو اُس کا موثر ترین طریقہ یہ ہے کہ احتساب گھر سے شروع کیا جائے، اگر پہلے اپنے گھر والوں کا احتساب ہو اور پھر دوسرے گھروں کا تو پھر اُس احتساب کو سب غیرجانبدارانہ اور منصفانہ قرار دیتے ہیں وگرنہ یکطرفہ احتساب ہمیشہ جانبدارانہ ہی کہلاتا ہے۔ 

ماضی کا قصہ یاد آتا ہے، وفاقی وزیر حماد اظہر کے والد میاں محمد اظہر لاہور کے لارڈ میئر تھے، تجاوزات کے خلاف مہم چلانا چاہتے تھے، سب لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مہم مخالفوں کی تجاوزات گرائے گی اور نون لیگیوں کی تجاوزات کو تحفظ فراہم کرے گی لیکن میاں اظہر نے تجاوزات ختم کرنے کی مہم کا آغاز ہی بیڈن روڈ پر میاں نواز شریف کے ماموں کی تجاوزات ختم کرکے کیا۔ 

اُس کے بعد اُنہیں پورے لاہور میں تجاوزات گرانے میں مشکل پیش نہ آئی کیونکہ احتساب کا آغاز گھر سے کیا جائے تو کوئی مخالف بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا، عمران خان کا قبضہ مافیا کے خلاف اعلانِ جنگ خوش آئند ہے لیکن اگر اُنہوں نے اِس پر غیرجانبداری نہ دکھائی تو کل کو یہ مہم بھی سیاسی انتقام کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔

کسی بھی معاملے کو دیکھنا ہو تو تعمیر اور تخریب کے پہلو کا جائزہ ضرور لینا چاہیے، آج کل کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف اگلا الیکشن ہیلتھ کارڈ کی بنیاد پر جیتے گی، اِس مقصد کے لیے پنجاب کے تمام ڈویژنوں میں جلد سے جلد ہیلتھ کارڈ بنانے کی مہم جاری ہے، ہیلتھ کارڈ کا اجرا تعمیری قدم ہوگا مگر ہیلتھ کارڈ کے لیے جس خطیر رقم کی ضرورت ہے وہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ سے منہا کی جارہی ہے، یوں محکمہ صحت پر پنجاب حکومت کے اخراجات کے علاوہ ہیلتھ کارڈ کی رقم کا بوجھ بھی پڑے گا۔ 

اِس معاملے میں تخریب کا پہلو پنجاب کے ترقیاتی بجٹ یعنی سڑکوں، اسکولوں اور دوسرے تعمیراتی پروجیکٹس پر کٹ لگانا ہوگا۔ یوں بہت سے نئے منصوبے نہ تعمیر ہوں گے اور کئی نامکمل ہی رہ جائیں گے، نوکر شاہی میں اِس حوالے سے کش مکش جاری ہے۔ بظاہر ہیلتھ کارڈ کا منصوبہ چلتا رہے گا لیکن اُس کے مالی مضمرات دوسرے شعبوں پر پڑیں گے اور آنے والے برسوں کے ترقیاتی منصوبے بری طرح متاثر ہوں گے۔

تعمیر و تخریب کے فلسفے کو مدِنظر رکھ کر آئندہ الیکشن کے منظر نامہ کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف تخریب کے تناظر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ اُنہوں نے احتساب کے لئے سب بڑوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالا، سب کو زندان کے حوالے کیا جا رہا ہے کوئی اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ تھا یا مخالف، سب کو عمران خان نے نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی۔ 

دوسری طرف اگر تحریک انصاف سے تعمیر کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو اُس کا کوئی تسلی بخش جواب عوام کے لئے میسر نہیں ہوگا۔ ہیلتھ کارڈ وہ واحد بڑا منصوبہ ہے جس پر کام جاری ہے اُس کے علاوہ کسی بڑے پروجیکٹ کا ذکر تک نہیں، حکومت صرف روزمرہ کے کام کاج یا آگ بجھانے کا ٹاسک بجا لا رہی ہے، دور رس ترقی یا خوشحالی کے منصوبے دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ 

اگر یہ حکومت اپنے 5سال پورے کرتی ہے اور الیکشن میں تعمیر و تخریب دونوں کا حساب دیتی ہے تو اِس حکومت کے ذمہ تخریب زیادہ ہوگی اور تعمیر کم۔ نتیجتاً حکومت الیکشن میں بلند آہنگ نعرے نہیں لگا سکے گی۔

اڑھائی سال گزر چکے، حکومت تقریباً آدھی مدت پوری کر چکی ایسے میں حکومت کو اب تخریب کی بجائے تعمیر کے بیانیے پر توجہ دینی چاہئے، اپنے ہائوسنگ پروجیکٹس اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ صرف کرنی چاہئے، اگر حکومت نے اپنی ساری توانائی مخالفوں کو گرانے، سزائیں سنانے، جیلوں میں بھیجنے یا اُن کی عمارتیں گرانے تک محدود رکھی تو آنے والے وقت میں لوگ حکومت کے تعمیری منصوبوں پر سوال اٹھائیں گے اور پوچھیں گے کہ ٹھیک ہے آپ نے غلط لوگوں کو سزا دلوا دی مگر ہمارے لیے کیا تعمیر کیا؟ کون سی موٹر وے، کون سا ڈیم، کون سا پل یا کون سی یونیورسٹیاں نئی بنائی ہیں؟ اسی طرح یہ سوال بھی ہوگا کہ پچاس لاکھ گھر، کروڑوں نوکریاں اور اربوں ڈالر واپس لانے کے دعوے کیا ہوئے؟

سیاست سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو تعمیر ایک مثبت اور تخریب ایک منفی جذبہ ہے۔ 13سال پہلے شہباز شریف نے جو عمارتیں گرائیں وہ ابھی تک خستہ حال پڑی ماضی کے حکمرانوں کا منہ چڑا رہی ہیں، یہ نہ ہو کہ جو عمارتیں آج گرائی جارہی ہیں وہ آنے والے برسوں میں موجودہ حکمرانوں کا منہ چڑاتی رہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔