بلاگ
Time 28 فروری ، 2021

کتے کے کاٹنے پر ایم پی اے معطل

ٖفائل:فوٹو

آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ دادا دادی۔ نانا نانی۔ ماں باپ کے اپنی اولادوں سے کچھ سیکھنے کا دن۔ ہم جو نئے آلات اسمارٹ فون۔ انٹرنیٹ۔ فیس بک۔ استعمال کررہے ہیں اس کے ماہر ہمارے بچے ہیں۔ ان سے ان آلات کے اسرار و رموز جاننے کیلئے اتوار ہی زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔

میرے سامنے اپنی نوعیت کا ایک اہم فیصلہ ہے جو سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے 24فروری کو کیا ہے۔ اب اس کا تحریری فیصلہ بھی آگیا ہے۔ تاریخ میں ایسا موثر فیصلہ دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ فیصلہ یہ ہے کہ جس علاقے میں کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آئے گا اس علاقے کا ایم پی اے معطل ہوگا۔ معطل ایم پی اے سینیٹ انتخابات میں ووٹ بھی نہیں دے سکے گا۔ 

سندھ بھر سے بلدیہ، ریونیو اور پولیس افسران کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ میونسپل افسران کتا مار مہم چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ اب اگر کوئی واقعہ پیش آیا تو سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ اس میونسپل افسر کی تنخواہ بند کردے اور اسے سر پلس کردے۔ 

عدالت عالیہ نے یہ انتباہ بھی کیا کہ اب جس علاقے میں کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آئے گا اس علاقے کے ایم پی اے کو معطل کیا جائے گا۔ جس پر وہاں پر موجود سرکاری وکیل نے کہا کہ سگ گزیدگی کے واقعات سے ایم پی اے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس پر عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پتہ ہے کہ کتا مار مہم کے حوالے سے آنے والے فنڈز میں کسے کمیشن دیا جاتا ہے۔ 

ہمارا منہ نہ کھلوایا جائے تو بہتر ہوگا۔ عوام کا تحفظ کرنا ایم پی ایز کا فرض ہے اب جس حلقے میں واقعہ پیش آئے گا اس علاقے کا ایم پی اے سینیٹ الیکشن میں اپنا ووٹ بھی کاسٹ نہیں کرسکے گا۔

اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری عدالتیں آزاد ہیں۔ ہمارے محترم اور فاضل منصف حقائق سے با خبر ہیں۔ یہ تبصرے صرف کتے کے کاٹنے کے واقعات سے ہی منسلک نہیں بلکہ پاکستان کے بگڑے ہوئے معاشرے کا مکمل ادراک ہیں۔ بے لگام انتخابیوں کو سرپٹ دوڑنے سے روکنے کی ایک موثر کوشش ہے۔

 اسمبلیوں نے ہمارے با اثر طبقے کو خود سر بلکہ سرکش بنادیا ہے۔ اہلِ مغرب نے صدیوں کی سوچ بچار کے بعد جمہوریت کا جو نظام عام انسانوں کی بہبود اور خدمت کے لیے تخلیق کیا وہ ہمارے ہاں قبائلی خواہشات، جاگیردارانہ تمنائوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ 1985کے بعد پارلیمانی نظام سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ صنعت وزراعت میں بھی نفع کا اتنا تناسب نہیں ہے جو اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات میں ہے۔ 

کہا تو جاتا ہے جمہوریت عوام کے لیے۔ عوام کی خاطر۔ عوام کی حکومت۔لیکن پاکستان میں یہ خواص کیلئے۔ خواص کی خاطر خواص کی حکومت ہے۔ ہر الیکشن اور ہر جمہوری حکومت کے بعد ان کے گوشوارے دیکھ لیں۔ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ منتخب لوگ لیاری۔ لالو کھیت۔ فیڈرل بی ایریا سے ڈیفنس ۔ کلفٹن اور بھاٹی۔ لوہاری۔ کرشن نگر سے گلبرگ۔ شادمان، ڈیفنس منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اور جن کے ووٹوں سے یہ سب کچھ ممکن ہوتا ہے وہ ان ہی کچی بستیوں میں اپنی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ اس فیصلے نے اس اعلیٰ طبقاتی سیاسی نظام، وڈیرہ شاہی، جمہوریت، سرمایہ دارانہ سیاست کو بے نقاب کیا ہے۔

آج ہی کسی چینل پر یہ دل خراش خبر دیکھی اور ایک 2سالہ بچی کا معصوم چہرہ بھی۔ میں تو لرز کر رہ گیا۔ یہ بچی ایک آوارہ کتے کے کاٹنے سے چل بسی۔ اس کی ماں کے بین۔ ہم بچوں والوں کے دل دہلارہے تھے۔اس علاقے کے ایم پی اے یا ایم این اے نے تو یہ خبر سنی بھی نہیں ہوگی۔ 

عدالت عالیہ سندھ کی طرف سے کتے کے کاٹے جانے کا علاقے کے ایم پی اے کو ذمہ دار ٹھہرانا، جمہوریت کی روح کو نافذ کرنے کا ادراک ہے۔ حکمرانی کے فلسفے کا اطلاق ہے۔ انتخابات کا سلسلہ صدیوں کی سوچ کے بعد کیوں شروع کیا گیا۔ انسان قبائلی طرز معاشرت سے اس شائستہ سماج کی طرف کیوں آیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نائب انسان کی زندگی آسان اور محفوظ ہوسکے۔

ہمارے سماج میں وڈیروں۔ جاگیرداروں۔ قبائلی سرداروں۔ نو دولتیوں۔ مزدوروں کا خون پینے والے صنعتکاروں کسی قاعدے قانون سے بالاتر ٹھیکیداروں نے انگریزوں کے نافذ کردہ قواعد و ضوابط کو یکسر ملیا میٹ کردیا ہے۔ سرکاری خزانے اور مختلف عوامی خدمات کے لیے منظور شدہ فنڈز کی مشترکہ لوٹ مار کا ایک خبیث دائرہ تراش لیا ہے۔ کمیشن طے کردہ ہیں۔
 اس بے ایمانی کے سسٹم کو بڑی ایمانداری سے چلایا جارہا ہے۔ کتے باؤلے ہورہے ہیں۔ اونٹ پاگل ہورہے ہیں۔ گھوڑے اپنے حواس کھورہے ہیں۔ گدھے بھی بد مست ہورہے ہیں۔ امریکہ میں گدھا ہر چند کہ ایک سیاسی پارٹی کی شناخت بھی ہے۔ مگر امریکہ برطانیہ یورپ سب ملکوں میں جانوروں کی عادات وصحت پر تحقیق ہورہی ہے۔ان کو ہلکائو ،پاگل پن، آب ترسی سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔RABIES سے بچنے کے لیے فنڈز رکھے جاتے ہیں۔ ویکسین دستیاب ہوتی ہے۔ 

مقامی حکومتیں، میونسپلٹیاں اس شعبے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان نے بلدیاتی اداروں کو اپنا رقیب جان کر ان کے اختیارات چھین لیے ہیں۔ فنڈز پر اجارہ صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا ہے۔ سامراج سے مملکتیں آزادی اور خود مختاری حاصل کرتی ہیں۔ مگر صوبوں کو خود مختاری دینے سے گریز کرتی ہیں۔ 

پھر صوبائی حکومتیں ضلعی حکومتوں کو مالی اور انتظامی خود مختاری نہیں دیتی ہیں۔ باؤلے کتوں اونٹوں گھوڑوں گدھوں سے انسانوں کو بچانا مقامی حکومتوں کی ذمہ داری تھی۔ مقامی حکومتیں جمہوریت کے باؤلے پن کا شکار ہوکر بے اثر کردی گئیں۔ اس لیے اب کتے کے کاٹنے کی ذمہ داری بجا طور پر ایم پی اے کی قرار پائی ہے۔ اگر بلدیاتی ادارے با اختیار ہوتے تو جس علاقے میںکتے کے کاٹنے کا واقعہ ہوتا وہاں کونسلر، چیئر پرسن یا ناظم کو ذمہ دار قرار دیا جاتا۔

RABIESجانوروں کے باؤلے پن کے واقعات میں پاکستان میں 90فی صد کتے کے کاٹنے کے ہیں۔ تحقیق کہتی ہے کہ جانور کے کاٹنے سے وائرس انسان میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہ بھی باؤلا ہوجاتا ہے ہمارے ہاں تو جانوروں سے زیادہ انسان دولت اور اقتدار کے لالچ میں بائولے ہورہے ہیں۔ باؤلے انسانوں کے کاٹنے کی ویکسین جمہوریت ہی ہے۔ یہاں جمہوریت میں انسان انسان کو کاٹ رہا ہے۔عدالت عالیہ سندھ کے اس فیصلے پر آفریں کہتے ہوئے غالبؔ کو یاد کروں گا۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔