بلاگ
Time 10 مارچ ، 2021

ڈنکی ٹریڈنگ اور تلخ سیاسی حقائق

فائل:فوٹو

پہلے ایک لطیفہ اور پھر پاکستانی سیاست سے متعلق چند تلخ اور سنجیدہ حقائق۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک بادشاہ جو اپنی بیگم سے بہت ڈرتا تھا،نے اپنے مرد شہریوں کو بلا کر کہا کہ جو اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں، وہ لکیر کے دائیں طرف کھڑے ہوجائیں اور جو نہیں ڈرتے وہ بائیں طرف کھڑے ہوجائیں۔

باقی سب شہری دائیں طرف کھڑے ہوگئے لیکن ایک صاحب تنہا دوسری طرف کھڑے تھے۔ سب لوگ ان کی بہادری کی داد دیتے ہوئے حیران ہورہے تھے۔ بادشاہ نے اس ”بہادر“ کو بلا کر یہ جاننا چاہا کہ وہ کونسی ترکیب استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دل سے بیوی کا خوف رخصت ہوگیا؟ لیکن یہ جان کر بادشاہ حیران رہ گیا کہ وہ صاحب تو باقیوں کی نسبت زیادہ ڈر رہے ہیں۔ شہری نے جواب دیا کہ عالم پناہ مجھے بیوی نے ہی یہ حکم دیا تھا کہ بائیں طرف کھڑا ہونا ہے اسی لئے میں بائیں طرف کھڑا رہا۔

ان دنوں جب بھی الیکشن کمیشن کی بہادری یا پھر پیپلز پارٹی کی قیادت کی سیاست کی کامیابی کی بات ہوتی ہے، تو مجھے یہ لطیفہ یاد آجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو عملاً نہیں بلکہ تاحکم ثانی آزادی دکھانے کا حکم ملا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اصل ٹیسٹ کیس پارٹی فنڈنگ اور اسی نوع کے دیگر کیسز ہیں اور اگر واقعی وہ آزاد ہوگیا ہے تو ذرا ان کیسز میں میرٹ پر فیصلہ کرکے دکھا دے۔ یہی معاملہ پیپلز پارٹی کا ہے۔

میں پہلے بھی لکھ چکاہوں اور آج اعادہ کرتا ہوں کہ سید یوسف رضاگیلانی کے انتخاب لڑنے کا آئیڈیا مصطفیٰ نواز کھوکھر کا تھا لیکن پی پی پی کی قیادت اس وقت تک الیکشن لڑنے پر آمادہ نہ ہوئی، جب تک کچھ اہم ملاقاتوں کے بعد این او سی نہ ملا۔ دراصل یہ سب کچھ اس اسکرپٹ کا حصہ ہے جس پر کئی ماہ قبل اتفاق ہوا تھا اور جس کے بعد بلاول صاحب نے نواز شریف کی تقریر پر دھچکا پہنچنے والا بیان دے کر پی ڈی ایم کے انقلابی بیانیے کے غبارے سے ہوا نکالنے کے عمل کا آغاز کیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی ایک نئی قسم کی پی ٹی آئی ہے جس سے دو کام لئے جارہے ہیں۔ ایک تو پی ڈی ایم کو سڑکوں پر نکلنے اور انتہا پر جانے سے روکنے کا کام اور دوسرا جب خان صاحب آنکھیں دکھانے لگتے ہیں تو انہیں پیپلز پارٹی کے ذریعے سبق دیا جاتا ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہوا کہ خان صاحب خود کو سچ مچ وزیراعظم سمجھنے لگے تھے، الٹے سیدھے بیانات کے علاوہ انہوں نے کئی معاملات میں بات ماننے سے بھی انکار کرنا شروع کیا تھا۔

چنانچہ گیلانی صاحب کی سینیٹ الیکشن جیت کے ذریعے بات سمجھادی گئی تاہم اب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پتہ چل جائے گا کہ زرداری، حقیقتا کتنے بھاری ہیں؟ اس لئے اب پیپلز پارٹی زیادہ زور پنجاب میں عدم اعتماد پر ڈال رہی ہے جس کا مقصد پی ڈی ایم کو جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کی سیاست میں الجھا کر عمران خان کو سیدھا رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے جس اسکرپٹ کی بنیاد پر ڈیل کی ہے، اگر اس پر من و عن عمل ہوا تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی حریف نہیں رہیں گی بلکہ پنجاب میں اگلا الیکشن دونوں مل کر لڑیں گی۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیسے اور ڈیل کی سیاست میں بلاول بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی، زرداری صاحب کے دورسے بھی دو قدم آگے بڑھ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کا بیانیہ ووٹ کو عزت دینے کا تھا لیکن سینیٹ انتخابات کے دوران ضمیر فروشی کے دھندے میں ملوث ہوکر پیپلز پارٹی کی قیادت نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کرکے نوٹ کو عزت دو کا فلسفہ زندہ کیا۔

حالیہ سینیٹ الیکشن کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے 16نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے 30 سے زائد اراکین قومی اسمبلی کو ساتھ ملایا تھا لیکن آخری دو دنوں میں عمران خان کی چیخ و پکار کے بعد قوم کے وسیع ترمفاد میں کچھ طاقتیں متحرک ہوئیں جنہوں نے اس تعداد کو کم کیا۔

دوسری بھیانک حقیقت یہ ہے کہ صرف پیپلز پارٹی نے خریداری نہیں کی بلکہ پی ٹی آئی نے بھی اپوزیشن کے نصف درجن ممبران توڑے، جن میں ایک جے یو آئی کا ممبر بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے جن 16 سے زیادہ ممبران نے گیلانی کو ووٹ ڈالے یا ضائع کئے، ہر ایک کا عمران خان کو علم ہے۔ یہ صرف میرا دعویٰ نہیں بلکہ میرے ٹی وی پروگرام جرگہ میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو سب پتہ ہے۔

صرف اس انتخاب کا نہیں بلکہ عمران خان کے پاس چیئرمین نیب کی درجنوں آڈیو وڈیوز کے ساتھ ساتھ گزشتہ سینیٹ انتخابات سے متعلق بھی پندرہ سے زیادہ وڈیوز موجود ہیں۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نشاندہی کرکے انہیں بتائے کہ پی ٹی آئی کے کون کونسے لوگ بکے ہیں لیکن کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ 2018 میں آپ نے جن لوگوں کو پارٹی سے نکالا، کیا ان کے نام آپ کو الیکشن کمیشن نے دیے تھے؟ صرف یہ نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں عمران خان کے امیدواروں نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے درجنوں بندے توڑے اور اسی وجہ سے فرحت ﷲ بابر اور جماعت اسلامی کی خاتون امیدوار کو ہرایا گیا۔

وہاں بھی عمران خان کو سب پتہ ہے کہ کون بکا اور کس نے خریدا کیونکہ خود انہوں نے کھرب پتیوں کو ٹکٹ اس لئے دیے تھے کہ وہ پیسہ لگا سکیں۔ اس لئے میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ خریدوفروخت کے معاملے پر سیاست تو ہوتی رہے گی لیکن عمران خان اس معاملے کو کبھی عدالت یا الیکشن کمیشن کے ذریعے منطقی انجام تک نہیں پہنچانا چاہیں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو اس حمام میں تینوں بڑی پارٹیاں یکساں عریاں ہیں۔

دوسری وجہ یہ کہ عمران خان کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کی جماعت کا کون کونسا ممبر پھسلا ہے لیکن ان کا دماغ خراب نہیں کہ اپنے تیس کے لگ بھگ اراکینِ اسمبلی کے خلاف کارروائی کریں۔ ایسا کیا تو اگلے دن وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ یہ بات بھی خود وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے مجھے بتائی کہ اگر عمران خان نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی تو اگلے دن ان کی حکومت نہیں ہوگی اور میں آپ کے سامنے وزیر نہیں بلکہ صرف ایم این اے کے طور پر بیٹھا ہوں گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔