14 مارچ ، 2021
حسب توقع سنجرانی جیت گئے۔ اب کے پی ڈی ایم کو وہی جھٹکا لگا جو 3 مارچ کو پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا۔
کسی بھی ملک کے لیے وہ وقت بہت خطرناک ہوتا ہے جب عوام اپنے حکمرانوں سے بیزار ہو جائیں اور یہ سوچنے لگیں کہ ان کے دن کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔
آج اتوار ہے۔ اپنی آنے والی کل سے حال احوال کا دن۔ بڑے چھوٹے سب حالات سے پریشان۔ مہنگائی سے بے حال۔ حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ میں آج وزیر اعظم سے براہِ راست بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں اپنے ہم وطنوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرکے ان سے مشاورت بھی چاہی تھی۔ میری درخواست پر کوئٹہ سے اسلام آباد تک کی بہنوں، بھائیوں، مائوں، بزرگوں نے اپنے قیمتی خیالات سے آگاہ کیا۔ میں ان سب کی آواز بننا چاہتا ہوں۔ سب کے نام لینا ممکن نہیں ہے ۔ آئیے مل جل کر ہم وزیر اعظم اسلامی جمہوریۂ پاکستان سے باتیں کریں۔
السلام علیکم! آپ اس بد قسمت ملک کے 22ویں وزیراعظم ہیں۔ ہم پاکستانی جو اس کے اصل مالک ہیں، آپ سے آپ کے اقتدار کے نو سو انتالیسویں (939) دن مخاطب ہیں۔ آپ کو عوام نے 1825 دن کی مہلت دی تھی۔ نصف سے زیادہ مدت گزر چکی۔ ہم سب کرب میں ہیں۔ ہم نے تو آپ سے اس لیے توقعات وابستہ کی تھیں کہ آپ ان روایتی قبائلی سرداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں میں سے نہیں تھے۔ آپ کے تبدیلی کے نعرے نے ہمارے دل موہ لیے تھے۔ کرپشن کے خلاف آپ کے عزم مصمم سے یہ امید ہو گئی تھی کہ ملکی خزانے سے لوٹا ہوا پیسہ پھر ہمارے خزانے میں واپس آ جائے گا۔ ہمارے قرضے اتر جائیں گے۔ ہماری فی کس آمدنی بڑھ جائے گی۔ ملک میں ایک سسٹم قائم ہوجائے گا۔
939 ویں دن ہر طرف ایک مایوسی ہے۔ روایتی حکمران طبقوں کی یلغار بڑھ چکی ہے۔ اسلام آباد پر پھر ان کی نظریں ہیں۔
آپ کی حکومت اس وقت ایک بہت ہی خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔
کھڑے ہیں اب تو وجود و عدم کی سرحد پر
بس ایک لغزش پا پر ہے فیصلہ ہونا
لغزشیں آپ سے بھی ہو رہی ہیں۔ آپ کے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج سے بھی۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں بس اب اور نہیں چیف صاحب۔ بہت ہوگئی۔ ہماری جان چھوڑ دیں یقیناً ان کی تعداد ابھی ان لوگوں سے کم ہے۔ جو یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں۔ تقریریں کم عملی اقدامات زیادہ کریں۔ کچھ کا بہت ہی صائب مشورہ ہے کہ آپ اقتدار سے پہلے کے اپنے بیانات پر دوبارہ نظر ڈالیں۔ ان پر عمل کریں۔ پاکستان کو اس وقت ایک سخت بے رحم حاکم کی ضرورت ہےجو آپ بن سکتے ہیں۔
خلق خدا کی سب سے پہلی پکار تو یہ ہے۔ 1۔مہنگائی کے خاتمے کو اولیں ترجیح دیں۔ ضرورت کی چیزیں سستی کریں۔ ورنہ جو رہے سہے حامی ہیں وہ بھی مخالف ہو جائیں گے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کا نظام درست کریں ۔2۔ بے روزگاری بہت بڑھ گئی ہے۔ کورونا کے بہانے ہزاروں ہم وطن نوکریوں سے نکال دیے گئے ہیں۔ ان سے کام لیں۔ غیر کاشت شدہ زمینوں پر کام کروائیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ زراعت میں پیشرفت سے ہی ملک مستحکم ہو سکتا ہے ۔3۔ کورونا کی وجہ سے درس گاہیں بند ہیں لیکن اس اثنا میں ایک جدید بنیادوں پر تعلیمی نظام منظور کریں اور حالات بہتر ہوتے ہی اسے نافذ کریں۔ غریب بچوں کے لیے پرائمری، سیکنڈری تعلیم مفت کریں ۔
4۔ چھوٹے زمیندار اور کاشتکار کہتے ہیں کہ فرٹیلائزر کی قیمتیں کم کریں ۔5۔ بلوچستان سے آواز آرہی ہے، لاپتہ نوجوانوں کو ان کے گھروں میں واپس لائیں۔ 6۔سیاسی پارٹیوں میں اندرونی انتخابات لازمی قرار دیے جائیں ۔7۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ انصاف کریں۔ مردم شماری کے حقیقی نتائج مرتب کریں ۔
8۔ کرپشن کا خاتمہ یقیناً ہونا چاہئے لیکن ان کے خلاف آپ کا بیانیہ کمزور پڑ رہا ہے۔ دو اڑھائی سال میں جو کچھ ہونا چاہئے تھا نہیں ہو سکا۔ اسے متعلقہ اداروں پر چھوڑیں۔ آپ 22 کروڑ کے وزیراعظم ہیں۔ ملک میں اور بہت سے شعبے ہیں جنہیں فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ قدرتی وسائل کی دریافت ناگزیر ہے۔ ریکوڈک کا تنازع طے کریں۔ 9۔ پاور سیکٹر میں بہت بدحالی ہے۔ سارا بوجھ غریبوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ انرجی کے متبادل ذرائع ملک میں بہت ہیں۔ ان کو بروئے کار لائیں۔ 10۔ اپنی کابینہ میں تبدیلی لائیں۔ خوشامدی ٹولے سے نجات حاصل کریں ۔
11۔ لاکھوں بزرگوں کا مسئلہ پنشن کا باعزت حصول ہے ۔12۔ اپنے پرنسپل سیکرٹری کو تبدیل کرلیں ۔13۔ پناہ گاہیں۔سٹیزن پورٹل۔ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان پر پیسہ ضائع کرنے کی بجائے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ 14۔ FATF اور اس قسم کے مسائل کا عوام کو شعور نہیں ہے۔ ان کو اعتماد میں لیں۔ صحیح صورت حال سے آگاہ کریں۔
آپ ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جس کا محل وقوع انتہائی اہم اور حساس ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے ہم نے خطرناک بنالیا ہے۔ ملک میں 60فی صد نوجوان آبادی اللہ تعالیٰ کی سب سے گراں قدر نعمت ہے۔ ان کی تربیت کا اہتمام کریں۔ وظیفے مقرر کریں۔
ٹائیگر فورس جیسی بے مقصد تنظیمیں نہ بنائیں۔ اپنی پارٹی کو منظم کریں۔ اس کے لیے پارٹی سربراہ الگ ہونا چاہئے اور ایک چیف آرگنائزر جو پورے ملک میں پارٹی کو منظم کرے۔ لوگوں کو بجا طور پر شکایت ہے کہ پی ٹی آئی میں جو لوگ ناجائز فائدے اٹھا رہے ہیں، اپنے سرکاری مناصب ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہو تو سمجھا جائے گا کہ کرپشن کیخلاف آپ کی نیت صاف ہے۔
آپ نے بر وقت فیصلے نہیں کیے۔ فیصلے کیے ہیں تو ان پر عمل نہیں ہوا ہے۔ تھانے اب بھی بک رہے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر اب بھی میرٹ پر تقرر نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر عشرت حسین ضائع ہو گئے ہیں۔ ثانیہ نشتر کا مصرف بھی ان کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہوا۔ جس وزیر کا جو شعبہ ہے، اس پر اس کی توجہ نہیں ہے۔ ہر کوئی ترجمان بننے کے لیے بے تاب ہے۔ اپوزیشن کی یلغار کا جواب بیانوں سے نہیں عملی اقدامات سے دیں۔
بے شک آپ سینیٹ کا الیکشن جیت گئے ہیں۔ آپ کے پاس مہلت بہت کم ہے۔ آپ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ اگر اب درست سمت میں بر وقت فیصلے نہ ہوئے۔ عوام کی پریشانیاں دور نہیں ہوئیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو آپ کا اقتدار قائم نہیں رہے گا اور وہی پرانے حکمران اگر پھر اقتدار میں آئے تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔