17 مارچ ، 2021
معیشت یقیناًزوال پذیر ہے۔ تمام اشاریے مایوس کن ہیں۔ جی ڈی پی گروتھ اور مہنگائی کے حوالوں سے ہم انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش تو کیا امسال افغانستان سے بھی بدتر صورت حال سے دوچار رہے۔ گزشتہ چند سال میں ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے ریاستی ادارے متنازع ہوئے۔ تبدیلی لانے کے لئے عدلیہ کو جس طرح استعمال کیا گیا اور سیاسی معاملات کو جس شدت کے ساتھ اس کے ذریعے نمٹانے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے عدلیہ کا اب وہ مقام نہیں رہا جو ججز بحالی کے بعد تھا۔
ایک اور سنگین ترین نقصان یہ ہوا کہ فوج اور اس سے متعلقہ اداروں کو پی ٹی آئی کے ساتھ نتھی کردیا گیا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی مخالف سیاسی اور غیرسیاسی عناصر ان کے کردار کے حوالے سے سوال اٹھاتے رہے۔ کسی بھی قومی اور ریاستی ادارے کے لئے اس سے زیادہ نقصان دہ صورت حال کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ اس کو سوسائٹی کے کسی ایک طبقے سے جوڑ دیا جائے یا پھر کوئی طبقہ اس کو اپنا مخالف سمجھے۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو ایک اور شدید نقصان میڈیا کو ناقابل وقعت بنانے کی صورت میں پہنچا۔ تبدیلی لانے کی خاطر میڈیا کو تقسیم کیا گیا، اس کی آزادی چھین لی گئی، اس کے قابل وقعت اداروں اور کرداروں کو دباؤمیں لایا گیا۔ علیٰ ہذہ القیاس۔ اسی طرح پارلیمنٹ بے وقعت ہوئی، انتخابی عمل میں جو طریقے استعمال ہوئے، اس کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی جماعت یا کوئی باضمیر شخص اس کو حقیقی معنوں میں قوم کی نمائندہ پارلیمنٹ ماننے کو تیار نہیں، سوائے پی ٹی آئی کے۔
مذکورہ سب نقصانات سنگین ترین ہیں لیکن ایک نقصان ایسا ہوا ہے کہ جس کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں جاتی، وہ ہے ملک میں پولرائزیشن کے کلچر کا فروغ اور معاشرتی قدروں کی پامالی۔ اس حوالے سے عمران خان نے بعینہ وہی کردار ادا کیا جو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ادا کیا ۔انہوں نے نفرتوں کو ہوا دی،آج سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور فتوی بازی کی وجہ سے ہماری معاشرتی اقدار تباہ ہوتی جارہی ہیں۔
افسوس کہ سوشل میڈیا کے اس استعمال کی بنیاد پی ٹی آئی نے رکھی۔ ایک توپی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی مرکزی اور صوبائی ٹیمیں تھیں۔ دوسری طرف جہانگیر ترین، اسد عمر، عارف علوی، عثمان ڈار اور اسی طرح کے دیگر لوگوں نے اپنی اپنی ٹیمیں بنارکھی تھیں۔ پھر سنگاپور، لندن اور امریکہ میں لوگوں کا نیٹ ورک بنا کر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے سیاسی اور صحافتی مخالفین کی ٹرولنگ ہوتی رہی۔
جواب میں مسلم لیگ (ن) اور پھر دیگر پارٹیوں نے بھی سوشل میڈیا کا اسی طرح کا استعمال شروع کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ورکرز ایک دوسرے کے بارے میں وہ زبان استعمال کرتے ہیں، جس کا مشرقی معاشروں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ہماری سیاست میں پہلے بھی ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال ہوتی رہی لیکن مرکزی لیڈر کی طرف سے چور، ڈاکو اور منافق جیسے الفاظ پہلی مرتبہ عمران خان نے متعارف کرائے۔
معاملہ زبان تک محدود ہوتا تو بھی زیادہ تشویشناک بات نہیں تھی لیکن اب وہ سلسلہ آگے بڑھ کر گھیراؤ کی طرف جارہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ گھیراؤسے بڑھ کر جلاؤتک چلا جائے گا۔ چند روز قبل مسلم لیگ(ن) کی مریم اورنگزیب، شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کے ساتھ پی ٹی آئی والوں نے بدتمیزی کی اور گزشتہ روز لاہور میں پی ٹی آئی کے شہباز گل کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی ۔جس قدر پہلا عمل قابل مذمت تھا اسی طرح دوسرا قابل مذمت ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب مشکل سے رکے گا۔
آج سے چار سال قبل پی ٹی آئی کے ایم پی اے جاوید نسیم منحرف ہوئے تو عمران خان کے حکم پر پی ٹی آئی کے نوجوانوں نے ان کے گھر کا گھیراؤ کرتے ہوئے، ان کے خلاف تقاریر کیں۔ جن صاحب نے تقریر کی تھی میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ بہت غلط روش کو رواج دے رہے ہیں۔ سیاست کو گھروں تک نہیں لے جانا چاہئے لیکن ان کا کہنا تھا کہ خان کا حکم تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کہیں لندن میں مسلم لیگی رہنماؤں کے گھروں کے سامنے مظاہرے ہوئے توکہیں ائیرپورٹ پر احسن اقبال کو گھیر لیا گیا۔
اب وہ سلسلہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ شروع ہونے لگا ہے۔صدحیف کہ اب خواتین اور بزرگ سیاستدانوں کے ساتھ بدتمیزی کا سلسلہ بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان آخر میں خود پی ٹی آئی کے لوگوں کو اٹھانا پڑے گا۔ اقتدار کے بعد خان صاحب یا تو ملک میں نہیں رہیں گے یا پھر قومی لیڈر ہونے کے ناطے سیکورٹی کے حصارمیں رہیں گے لیکن مجھے فکر ان کے وزیروں اور مشیروں کی ہے۔
کل اگر مولانا فضل الرحمٰن اپنے مدرسے کے طالب علموں سے ان لوگوں کے گھروں کا گھیراؤ شروع کریں تو پھر کیا ہوگا؟یہ سلسلہ چونکہ پی ٹی آئی نے شروع کیا تھا، اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے بند کرانے میں پہل کرے۔ ویسے بھی حکمران ہونے کے ناطے کسی بھی نامناسب عمل کی روک تھام اس کا فرض ہے۔ ایک بات سب کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ مغربی ممالک میں معاشرتی بنیادیں کمزور لیکن حکومت اور قانون مضبوط ہے۔ ٹرمپ نے امریکی معاشرے میں جو زہر گھول دیا، اس کو وہاں کا قانون قابو کررہا ہے۔
پاکستان میں حکومتیں کبھی مضبوط نہیں رہیں اور قانون نے ہمارے معاشرے کو قابو میں رکھنے میں کبھی بنیادی کردار ادا نہیں کیا۔ ہمارا معاشرہ مضبوط تھا۔ کہیں قبیلے کے سربراہ نے لوگوں کواکٹھا کیا ہے کہیں گاؤں کے بزرگ اور مسجد کے امام نے۔ ان مضبوط معاشرتی بنیادوں نے ہی پاکستان کو جینے کے قابل رکھا ہوا ہے۔ یہ معاشرتی دیواریں گر گئیں تو خانہ جنگی کو کوئی نہیں روک سکے گااور مکرر عرض ہے کہ اس میں زیادہ نقصان پی ٹی آئی والوں کو اٹھانا ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔