24 مارچ ، 2021
کورونا سے متعلق این سی او سی کی کارکردگی سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ محترم اسد عمر مارکیٹنگ کے ماہر ہیں اور وہ بھی صرف اپنی ذات کی مارکیٹنگ کے۔ اول تو این سی او سی کی ذمہ داری، ایسے شخص کو دینا درست نہیں تھا کہ جس کے پاس اہم وزارت ہو اور جو دن رات سیاست اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی مصروف ہو اور جس کی اصل توجہ کا مرکز سوشل میڈیا ہو۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا اور ہے کہ جس کی کورونا سے متعلق پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوئی پالیسی نہیں۔
سی این این کے فرید ذکریا نے کورونا کے دس سبق کے نام سے جو کتاب لکھی ہے ، اس میں انہوں نے ایک سبق یہ بیان کیا ہے کہ سیاستدانوں کو طبی ماہرین کو سننا چاہئے ۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ این سی او سی کا سربراہ کسی طبی شعبے کے ماہر کو بنایا جاتا لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر این سی او سی میں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں کو نمائندگی ملنی چاہیے تھی اور ان کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے تھی لیکن این سی او سی یا حکومت نے اس معاملے میں بھی ڈاکٹروں کی بات نہیں مانی۔
ڈاکٹرز لاک ڈاؤن کا کہتے رہے لیکن حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ڈرامے کرتی رہی۔ تازہ ترین لہر کی مثال لے لیجئے ۔ دسمبر کے آخر میں یہ کیسز آنے شروع ہوئے۔ جنوری کے مہینے میں مجھے اسلام آباد کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے ہاں مریض پھر بڑھنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب برطانیہ میں تیسری اور خطرناک لہر کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو گیا اور صاحب حیثیت پاکستانی یہاں آنے لگے۔
برطانیہ سے آنے والوں کی ہوائی اڈوں پر ٹیسٹنگ تو دور کی بات اپنے گزشتہ کالم میں علی معین نواز ش نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح برازیل سے آنے والے ایک پاکستانی ائیرپورٹ پر اپنے کورونا ٹیسٹ کا مطالبہ کرتے رہے لیکن وہاں پر موجود حکام نے انہیں بغیر ٹیسٹ اور قرنطینہ کے گھر جانے کا کہہ کر رخصت کر دیا گیا۔
دوسری طرف وزیر اعظم ہوں، وزرا ہوں، وزرائے اعلیٰ ہو، گورنرز ہوں یا خود ٹائیگر فورس کے سربراہ، سب بغیر ماسک کے، سماجی فاصلے کے اصول کا مذاق اڑاتے نظر آتے رہے لیکن این سی او سی تماشہ دیکھتی رہی۔ اگر آرمی چیف مسلسل ماسک پہن سکتے ہیں تو وزیراعظم اور وزرا جو قوم کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں، نے یہ تکلیف گوارا کیوں نہیں کی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ وہ کم متاثر ہوا۔
اس وقت عالمی انڈیکس میں کیسز اور اموات کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 30 ہے لیکن باقی ممالک کا ڈیٹا مستند ہے اور وہاں مناسب ٹیسٹنگ ہوئی ہے جبکہ ہمارے ملک میں10 فی صد لوگ بھی ٹیسٹ نہیں کراتے۔ یوں ہمارے ملک میں متاثرین کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو این سی او سی بتارہا ہے اور اسی طرح کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہے۔
دوسرا ظلم ہماری حکومت نے ویکسین کے سلسلے میں کیا۔ سونامی سرکار نے صومالیہ اور یوگنڈا کی طرح پاکستان کو ان ممالک کی صف میں شامل کردیا جنہوں نے بروقت ویکسین کی خریداری کے لئے کوئی آرڈر نہیں دیا۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ویکسی نیشن سب سے آخر میں شروع ہوئی اور اس وقت اگر آپ جان ہاپکنز یونیورسٹی کا ویکسی نیشن کے حوالے سے چارٹ دیکھ لیں تو پاکستان کا گراف سب سے نیچے ہے۔ چین سے جو خیراتی ویکسین ملی، اس کو لگوانے کے لئے بھی این سی او سی نے مناسب بندوبست نہیں کیا۔ باقی پاکستان میں تو کیا حالت ہوگی آج تک اسلام آباد کے تمام طبی عملے کو ویکسین نہیں لگی۔
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال کا عملہ گزشتہ 10 دنوں سے کوشش کررہا ہے لیکن ان کی ویکسی نیشن کی باری نہیں آرہی ۔چین کی خیرات کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کے پروگرام کووکس کے تحت ایسٹرازینکا ویکسین کے بارے میں پہلے تو اسد عمر نے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے یہ ان کی کوششوں کا ثمر ہے جس کے جواب میں برطانیہ کے ایک سرکاری افسر کو جوابی ٹوئٹ کرنی پڑی کہ اس کی ادائیگی برطانیہ کی حکومت کرے گی۔
حکومت نے اس کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ فروری میں مل جائے گی لیکن مارچ کا اختتام ہونے کو ہے اور ایسٹرازینیکا پاکستان نہیں پہنچی۔ نجی کمپنیوں کے ذریعے ویکسین منگوانے کے معاملے میں بھی حکومت نے غیرسنجیدگی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ 3 ماہ تک یہ حکومت اس حوالے سے پالیسی نہ بناسکی اور آخر میں جب اجازت دی تو روسی ویکسین منگوانے والی کمپنی پر ایسی عنایت کی کہ جو پاکستانیوں کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔
عالمی مارکیٹ میں انڈیا میں اس ویکسین کی قیمت (دو ڈوزز) 20 ڈالر ہے لیکن پاکستان میں اس کی قیمت 8 ہزار 500 سو روپے مقرر کی گئی، اس کے باوجود وہ کمپنی نخرہ کررہی تھی۔ چنانچہ کابینہ نے اس کی قیمت مزید بڑھانے کی سفارش کردی۔ اس دوران ڈاکٹر فرخ سلیم اور اس طالب علم نے باہر کی دنیا میں اس ویکسین کی قیمت کا ایشو اٹھایا اور میڈیا میں دباؤ بڑھا تو حکومت نے قیمت مزید بڑھانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
آخر میں جناب عمران خان اور ان کی اہلیہ کی جلد صحت یابی کی دعا کے ساتھ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے ان کے لئے دعاؤں اور نیک خواہشات کے اظہار کی تحسین کرنا چاہوں گا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی کی طرح انہوں نے مخالف سیاسی رہنما کی بیماری کا مذاق اڑانے سے گریز کیا تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ کہہ کر انتہائی زیادتی کی کہ یا تو ویکسین جعلی ہے یا عمران خان کی بیماری جعلی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ویکسین بھی اصلی ہے اور عمران خان کی بیماری بھی۔ مولانا کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ویکسین لگانے کے فوراً بعد انسان کورونا سے محفوظ نہیں ہوجاتا بلکہ طبی ماہرین کے مطابق اینٹی باڈیز بننے میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو چاہئے کہ وہ اس بیان پر معذرت کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔