13 اپریل ، 2021
اصل صحافی وہ ہوتا ہے جس نے نیوزروم میں چلہ کشی کی ہو یا رپورٹنگ کا کشٹ کاٹا ہو۔ میں تو ماہناموں اور ہفت روزوں کا بندہ تھا جو ایک ’’حادثہ‘‘ کے نتیجہ میں روزناموں کی طرف دھکیل دیا گیا، اسی لئے نہ کبھی خود کو جرنلسٹ کہا نہ سمجھا۔
اصل کہانیاں جینوئن رپورٹرز کے پاس ہوتی ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معاشرہ کہاں کھڑا ہے اور کس طرف جا رہا ہے۔ چند روز پہلے ایک سینئر رپورٹر نے ایک ایسی کہانی سنائی جو آپ کو سنانا ضروری ہے۔
FIA لاہور میں آصف اقبال نامی ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہے جس کا تعلق سائبر کرائم ونگ سے ہے، کارکردگی اور کیریکٹر لاجواب۔ اس شخص کے سروس ریکارڈ جیسا ریکارڈ بھی کسی دوسرے افسر کا نہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم ایکٹ کے تحت پہلی سزا بھی اسی آصف اقبال کے تفتیش کردہ کیس میں سنائی گئی تھی وہ تعلیمی اداروں میں اعزازی طور پر سائبر کرائم سے متعلق لیکچرز دے کر طلبہ کو ایجوکیٹ بھی کرتا ہے تاکہ شعور پیدا ہو۔
بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی برہنہ فلمیں بنانے کے ایک انٹرنیشنل معاملہ کی انکوائری اور تفتیش بھی اسی شخص نے کی جو ناروے کی ایمبیسی کی طرف سے موصول ہوا تھا اور یہی وہ افسر تھا جس نے ملزم سعادت امین عرف انکل منٹو کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کو سرگودھا سے گرفتار کیا جو آج کل 7سال کی سزا کاٹ رہا ہے۔ یہ مشہور زمانہ کیس نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا پر چھایا رہا اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے نتیجہ میں پاکستان اور FIA کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔
2017ء میں اسی آصف اقبال نے ایک حاضر سروس SSPپولیس کو پکڑا جو آج بھی جیل میں ہے۔ یہ پولیس افسر اپنی ہی بیوی کی قابل اعتراض تصاویر لوگوں کو بھیج کر اسے بلیک میل کرتا تھا۔
اس پولیس افسر کے اثرو رسوخ کی وجہ سے آصف کو معطل بھی کیا گیا لیکن حقائق معلوم ہونے پر اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے نہ صرف آصف اقبال کو بحال کیا بلکہ معذرت کرتے ہوئے اسے FIAکا فخر بھی قرار دیا، اسی آصف اقبال کو 2019ء میں انچارج سائبر کرائم گوجرانوالہ تعینات کیا گیا اور اس کے دور میں پاکستان کے پندرہ (15)سائبر کرائم سرکلز میں لاہور کے بعد بلحاظ پرفارمنس گوجرانوالہ دوسرے نمبر پر رہا۔
گزشتہ برس سوشل بلکہ انٹرنیشنل میڈیا ’’خلیج ٹائمز‘‘ اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ وغیرہ پر یہ خبر اچھالی گئی کہ پاکستان میں ایک معصوم جانور کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔
ملک کی بدنامی پر آصف اقبال نے ذاتی حیثیت میں کیس کی تفتیش کر کے ثابت کیا کہ یہ سب بکواس اور من گھڑت ہے جس کو انٹرنیشنل میڈیا نے دوبارہ شائع کیا۔ 2019ء میں سائبر کرائم ونگ میں تقریباً 400افسران اور ملازمین کو بھرتی کیا گیا اور اس کے ڈیپارٹمنٹل سیلیکشن بورڈ میں آصف اقبال کو بھی شامل کیا گیا جو آخری انٹرویو تک اس بورڈ کا حصہ رہا۔
قارئین!
سائبر کرائم آگاہی مہم نہ صرف FIA کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کے لئے بجٹ بھی مختص کیا جاتا ہے۔ سائبر کرائم آگاہی ہر موبائل، انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کے لئے خوراک جتنی اہم ہے تاہم آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچوں کے ساتھ ایسے ایسے بھیانک واقعات پیش آ رہے ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔
آصف اقبال نے رضاکارانہ طور پر سیکڑوں انٹرویوز اور شارٹ ویڈیوز میں لوگوں کو بتایا کہ ATM کیسے استعمال کرنا ہے، کریڈٹ کارڈ میں کیا احتیاط کرنی ہے، اپنی فیس بک اور دیگر پر خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔ اپنی سرکاری ڈیوٹی سے کہیں بڑھ کر آن لائن ویبی نارز کے ذریعے بھی عوام کو آگاہ کیا۔
اس شخص پر الزام لگا کہ یہ افسر سوشل میڈیا بلااجازت استعمال کر رہا ہے۔ ان نیک بختوں سے کوئی پوچھے کہ بقراطو! اگر سائبر کرائم افسران نے سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا تو کس نے کرنا ہے۔ کسی سائبر کرائم افسر کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روکنا تو ایسے ہی ہے جیسے پولیس کو اسلحہ کے استعمال سے روک دیا جائے۔
یہی آصف اقبال اس مضحکہ خیز الزام کے نتیجہ میں مسلسل معطل ہے جس کے پیچھے مبینہ طور پر تحریک انصاف کی ایک خاتون وزیر اور اس کی صاحبزادی کا ہاتھ ہے جس کی شریک کار اک ’’عورت گینگ‘‘ کی سرغنہ بھی ہے جسے سوشل میڈیا پر غیرملکی دوروں، فارن فنڈنگ کے حوالہ سے کافی ایکسپوز کیا گیا ہے۔
میں نے تفصیلات کے لئے اپنے اسی سینئر رپورٹر دوست سے درخواست کی ہے، معلومات ملتے ہی یہ طلم ہوشربا بھی شیئر کروں گا۔
پاکستان تحریک انصاف تو اقتدار میں آگئی
کیا کبھی ’’انصاف‘‘ بھی اقتدار میں آئے گا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔