22 اپریل ، 2021
اپوزیشن کے غیر فطری اتحاد پی ڈی ایم کوجان بوجھ کر توڑنےکے پیچھے کئی اہم راز چھپے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آتے جائیں گے لیکن جلد بازی اورجذبات میں پی ڈی ایم کی بنیاد رکھتے وقت جو عہد وپیمان باندھے گئے، وہ سب خیالی اور سنہرے خواب تھے جن کی تعبیر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی مگر اس مقصد کیلئے پرخار راستوں کا انتخاب ہی واحد راستہ تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں سیاست عوام کی خدمت و مسائل کےحل کیلئے نہیں بلکہ محض مسند اقتدارکےحصول کیلئے کی جاتی ہے،چاہے اس کیلئے کسی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں بیعت ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ جب بھی حقیقی جمہوریت کی بحالی کےلئے پرخار راستوں کے انتخاب کی بات ہوئی،تاریخ گواہ ہےکہ سیاسی اکابرین ذاتی و گروہی مفاد کی خاطر آسان راہ کی تلاش میں دکھائی دیے۔
اب کی بار بھی مشکل گھڑی میں اپوزیشن کےاتحاد کا شیرازہ بکھیرنے کو ہی مشق ستم بنایاگیا اور اپنےچھوٹے مفادات کو اپنےہی اعلان کردہ عظیم عوامی مقاصدپر قربان کردیا گیا۔ایک بڑی جماعت جس نےابتدائی مرحلے میں پردہ در پردہ ’’ناخدا‘‘ کی نظر میں قابل قبول ہونے کی کوششیں کیں ،مثبت جواب نہ ملنے پرنہ صرف تابع فرمانی کےتمام راستے مسدود کردیے بلکہ ناکامی کی بھڑاس سخت برا بھلا کہہ کراور الزامات لگا کرنکالی۔
پارلیمنٹ سے ناک آؤٹ ہونے والی جماعتوں کوملاکرمقتدر کی کشتی میں سوراخ کرنے کی ناکام کوشش کی مگر بات کھل گئی پھراپوزیشن اتحاد کااہم جزو بننےوالی بڑی جماعتوں نے صورت حال کی نزاکت کو سمجھ لیا اور ملک کےایک چوتھائی حصے پر عطا کردہ اقتدار کوبچانے میں عافیت سمجھی۔ یوں ’’ناخدا‘‘ کی متوقع شکست کی عوامی امیدوں کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔
استعفیٰ لینے کے چکرمیں اپنے اپنے استعفے دبا کر گھر بیٹھ گئے۔راقم نے پی ڈی ایم کےقیام پر اس اکٹھ کوغیرفطری ، غیر حقیقی اتحاد اور مفادات کے جلد حصول کی خاطر ایک دوسرے کو دھوکہ دینےکاتجزیہ کیا تو کئی سیاسی جماعتوں کے بڑے دوستوں نے سخت شکوے شکایتیں کیں، خود کوسچا ثابت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی ،ان کی یقین دہانیوں اور قسموں پرمجھےیقین تھا یا نہیں مگرہمارے بڑے بڑے گھاگ ساتھی بھی دھوکہ کھا گئے پھر ’’ناخدا‘‘ کی مرضی سےسب بے نقاب ہوگئے۔
کپتان کےاڑھائی سالہ اقتدار کی داستان ’’کامیابیوں وکامرانیوں‘‘ اور عوام کے ’’خوشحالی‘‘ کے قصوں سے اٹ چکی ہے، کپتان اپنےدعوؤں کوحقیقت کا روپ دینے کیلئے بیٹنگ آرڈر ،باؤلرز کی تبدیلی اور فیلڈنگ میں بار بار اکھاڑ پچھاڑ کےباوجود پرفارم کرنے میں بے بس ہے،چوتھی بار ٹیم میں تبدیلی کےباوجود بہتری کے آثار سراب ہیں،’’ناخدا‘‘ کی مرضی کامیاب کرے یا نہ کرے!
ثابت ہوچکا کہ اپوزیشن گٹھ جوڑ نے حکمران اتحاد توڑکر اسے اقتدار سے چلتا کرنے میں کامیاب ہونا تھا نہ ہوا مگر ان حیران کن سوالوں کے جواب کوئی تلاش نہیں کرتا کہ ایوانوں میں اکثریت اوریکساں نمبروں کے باوجود پہلےکپتان کے کھلاڑی کو ناکام اور اگلے دن کپتان کو کامیاب کردیا جائے؟
غیرجانبدار رہ کر پنجاب سمیت ملک بھر کے ضمنی انتخابات میں ناکامی کی دھول چٹا دی جائے؟ کپتان اور کھلاڑیوں سے پہلےانتہاپسندی کوہوا دینے کی ترغیب اور پھر اِس پر قابو پانے کی ترکیب پر مجبور کردیا جائے۔اتحادی مخالفت اور لوٹ مارکے الزامات کےباوجود تبدیل تک کرنے کی اجازت نہ دی جائے،شایدجواب سادہ ہے ’’ناخدا‘‘ کی مرضی!
بغیر پوچھے دشمن ہمسایہ سے پینگیں بڑھانے کی کوشش میں کسی کواقتدارسے ہاتھ دھونے کی سزا ملتی ہےتو کسی کو دشمن کو دوست بنانے کی حکم عدولی پر سزاوار ٹھہرایا جاتاہے!یہی وجہ ہےکہ اب کی بار پارٹی بنانےوالاقریب ترین شدید ترین مخالف بناکر جہازی سواریوں سمیت کپتان کےسامنے کھڑا کردیا گیامگر یادرکھیں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا،پارٹی کا ڈپٹی ایکٹو ہے،روسی وزیرخارجہ سےوعدہ لینے کے بعد مشرقِ و سطی میں دشمن سےدوستی کا راستہ ہموار کرنےکی ڈیوٹی تندہی سےکررہاہے۔
گیم پلان کےمطابق تخلیق کار اور کرداروں کا مفاد سانجھا ہے، ’’ناخدا‘‘ بظاہربھنور میں پھنسی کشتی کو پھر سے نکالے گا اور سفر جاری رہے گا۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد سے ٹوٹنے والا بھاری اتحادی سگے بیٹے کی مخالفت کےباوجود اقتدار کی کشتی کا سوار بننے کی خاطر’’ناخدا‘‘ کی خوشنودی میں سب کچھ کررہا ہے۔
بیماری کے بہانے میدان سے بھاگنااور لندن سے للکار کا آئیڈیا مہنگاضرور پڑامگرچھوٹا بھائی سب ٹھیک کرنےکی ذمہ داری لیکر جلد ’’ضمانت‘‘ لیکر اکھاڑے میں اُترنے کو تیار ہے۔سیاسی میدان کے دواصلی حریفوں کے درمیان حقیقی مقابلے کا طبل بج چکا ہے اب ’’کارکردگی‘‘ کی بنیاد پر اقتدار کی کشتی کے سواروں کا فیصلہ بھی ’’ناخدا‘‘ ہی کرےگا۔ہاں ،وطن عزیز سے محبت رکھنے والے عوام کیلئے پیغام ہےکہ انہیں دو وقت کی روٹی نصیب ہو نہ ہو، روزگار اور امن و امان ملے نہ ملے تماشائےاہلِ کرم دیکھتےہوئےیقین رکھیں:
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔