بلاگ
Time 30 اپریل ، 2021

جنرل باجوہ اور پاکستان

فوٹوفائل

ہر حکمران کی طرح ہر آرمی چیف کے کاموں کو بڑی گہری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بظاہر ہنس مکھ ہیں مگر وہ اُس دور میں فوج کے سربراہ بنے جب خطرات اور دہشت گردی کا سامنا تھا۔ جنرل باجوہ نے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کیا۔

 22فروری 2017کے دن جنرل باجوہ کی سربراہی میں آپریشن ردالفساد کا آغاز ہوا۔ یہ آپریشن پورے ملک میں شروع کیا گیا۔ مقصد ایک ہی تھا کہ پاکستان پُرامن، مستحکم اور نارمل نظر آئے، پاکستانی قوم کا اعتماد بحال ہو۔

 یہ آپریشن اُس وقت شروع ہوا جب قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے پناہ لے کر زندگی مفلوج کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس آپریشن کیلئے حکمت عملی بنائی گئی۔ کاؤنٹر ٹیرر ازم کے تین بنیادی نکتے تھے:

1۔ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہو۔

2۔ مغربی سرحدوں کو محفوظ اور مستحکم بنایا جائے۔

3۔ ملک بھر سے دہشت گردوں کی بنیادی حمایت ختم کی جائے۔

اسی طرح انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے بھی تین بنیادی نکات تھے:

1۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد

2۔ قبائلی علاقوں کی قومی دھارے میں شمولیت

3۔ تعلیمی اداروں، مدرسوں کے ساتھ پولیس میں بھی ریفارمز

دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے چار مراحل تھے، علاقوں کو کلیئر کرنا، استحکام لانا، تعمیراتی پروگرام اور سول اداروں کی عملداری بحال کرنا۔ آپریشن ردالفساد کے تحت انٹیلی جنس کی بنیاد پر تین لاکھ 75ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے۔ ان آپریشنز میں ایم آئی، آئی ایس آئی، آئی بی، سی ٹی ڈی، رینجرز، ایف سی اور پولیس نے حصہ لیا۔

 آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس ختم کیے گئے۔ مثال کے طور پر مئی 2017میں چمن سے خودکش بمبار گرفتار کیے گئے، مستونگ کی دشوار گزار پہاڑیوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا، گوادر میں دہشت گرد حملہ آوروں کو مارا گیا۔

 خیبر پختونخوا کے علاوہ کراچی میں اسٹاک ایکسچینج اور چینی قونصل خانے پر نہ صرف حملوں کو ناکام بنایا بلکہ حملہ آوروں کو مار دیا گیا۔ پنجاب میں ایسٹر کے تہوار پر بڑی دہشت گردی کو ناکام بنا کر قیمتی انسانی جانیں بچائی گئیں۔

دہشت گردوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا، باڑ کے ذریعے سرحدوں کو محفوظ اور مستحکم بنانے کی غرض سے پاک افغان سرحد پر 84فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ پاک ایران بارڈر پر 43فیصد کام ہو چکا ہے۔ ان بارڈرز پر بارڈر پوسٹیں اور ٹرمینلز بنائے گئے ہیں۔ مشکل حالات میں قبائلی علاقوں میں 423چیک پوسٹیں بنائی گئی تھیں۔

 امن و امان میں بہتری کے باعث اب 248پوسٹیں رہ گئی ہیں۔ اس دوران سکیورٹی فورسز نے پولیس کے 37ہزار جوانوں کو تربیت دی، یہ عمل اب بھی جاری ہے، لیویز کو بھی تربیت دی گئی۔ خالی کروائے گئے علاقوں میں مقامی لوگ پھر سے آباد ہو گئے ہیں۔

 دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ملٹری کورٹس بنائی گئیں، 78سے زائد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایکشن لیا گیا، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ پر قابو پایا گیا۔

شدت پسند مواد کی تشہیر کو روکا گیا۔ وفاق المدارس اور علماء کی مشاورت کے طفیل 1800 سے زائد مذہبی رہنما پیغام پاکستان کے تحت انتہا پسندی کے خلاف یک زبان ہوئے۔ پیغام پاکستان نے نوجوانوں کو مذہب کے نام پر دہشت گردی کے چنگل میں جانے سے بچایا۔ 

آپریشن کے دوران ہی چھٹی مردم شماری ہوئی۔ آپریشن کے باعث امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی۔ کراچی 2014میں جرائم کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر تھا، اب وہ 106نمبر پر آ چکا ہے۔ قبائلی اضلاع میں 31ارب کی لاگت سے 831ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں سی پیک کے علاوہ بھی کئی بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

 اب کھیل کے میدان آباد ہیں۔ سیاحت کے لئے دنیا گوادر، گلگت بلتستان اور کے ٹو کی طرف دیکھ رہی ہے مگر اب ہمیں کورونا جیسی وبا کا سامنا ہے۔ چین نے پاکستانی افواج کے لئے ویکسین تحفے کے طور پر دی تھی۔ جنرل باجوہ نے خالصتاً قومی سوچ کے تحت ویکسین این سی او سی کے حوالے کی اور کہا کہ یہ ویکسین سب سے پہلے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو لگنی چاہئے جو ہمارے ہیرو ہیں جنہوں نے قیمتی انسانی جانیں بچانے کے لئے دن رات ایک کر رکھا ہے۔

اس دوران فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے بھی کام کیا گیا۔ تعلیمی نظام کا بھی جائزہ لیا گیا کیونکہ ہم دنیا کے تعلیمی انڈکس میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ہاں 25ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ہمارے ہاں ایک سے زائد تعلیمی نظام ہیں۔ سرکاری ادارے، پرائیویٹ اور مدرسے، قوم کی تقسیم کا سبب ہیں۔ 1947میں ہمارے ہاں 247مدرسے تھے اور آج مدرسوں کی تعداد 30 ہزار ہے۔ 

افغان جنگ اور انقلاب ایران کے بعد مدرسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ زیادہ تر مدرسے عسکریت پسند نہیں ہیں، بہت کم مدرسے انتہا پسندی کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مدرسوں میں غریب طالبعلموں کو تعلیم اور رہائش مفت دی جاتی ہے، دینی تعلیم کے ساتھ پاکستانیت کا درس دیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ بعض مدرسوں سے فرقہ واریت بھی ابھرتی ہے، ان کے طلبا عسکریت پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

 ایسے نقصانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اب فرقہ واریت کو ہوا دینے والا مواد ختم کیا جا رہا ہے۔ دیگر مضامین کو شامل کر کے ٹیچرز بھی مقرر کیے جائیں گے، مدرسے حکومت کے ماتحت ہوں گے، تمام مدارس اکاؤنٹس کھلوائیں گے، حکومت کی عملداری ہو گی، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور بورڈ کی عملداری ہو گی یوں ایک بدلا ہوا پاکستان نظر آئے گا۔

ایک دور تھا ہر طرف دہشت گردی نظر آتی تھی، ہمارے شہر دھماکوں سے گونجتے تھے، آپریشن ردالفساد کے ذریعے شہروں کو محفوظ بنایا گیا۔ ہم نے دنیا کو دہشت گردوں سے بچانے کے لئے 70ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ جنرل باجوہ نے یہ سارا کام بڑی محنت اور حکمت سے کیا ہے۔ جنرل باجوہ صرف سپہ سالار ہی نہیں بہترین حکمت کار بھی ہیں کہ ؎

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔