غیر مسلموں کی ریلیاں۔ نئی فلسطینی قیادت

’’اسرائیلیو نکل جائو۔ فلسطین تمہارا نہیں ہے۔‘‘

’’ میں فلسطینی ہوں۔ مگر فلسطین جا نہیں سکتا‘‘

’’ فلسطینیوں کا مارچ۔ آزادی اور فلسطین واپسی کے لئے‘‘

’’ یروشلم فلسطینیوں کا‘‘/’’اسرائیل قاتل۔ میکرون سرپرست‘‘

امریکہ کے متعدد شہروں، یورپ کے اکثر ملکوں کے کئی کئی شہروں کی مرکزی شاہراہیں، چوراہے فلسطین کی آزادی کے نعروں سے گونجتے رہے۔ فلسطین کے پرچم لہرائے گئے۔اسرائیل کے جلائے گئے۔ اسرائیل کے سرپرست امریکہ میں نیو یارک، لاس اینجلس، ہیوسٹن، ہالی وُڈ،یورپ میں لندن، برلن، میڈرڈ، پیرس، فرینکفرٹ، ہیمبرگ، ایتھنز، روم، کینیڈا میں ٹورانٹو، ایڈ مونٹن، کیلگری، آسٹریلیا میں سڈنی، ملبورن۔ کہیں سینکڑوں کہیں ہزاروں احتجاجی فلسطینی پرچم لہراتے سروں پر فلسطینی اسکارف باندھے نکلتے رہے۔

 مسلم ملکوں میں بھی ریلیاں نکلیں مگر ان کی تعداد اور جوش و جذبہ غیر مسلم ملکوں کی ریلیوں کے مقابلے میں بہت سرد تھا۔ او آئی سی کی قرارداد بھی رسمی تھی۔ اردن کے دارُالحکومت عمان، عراق کے بغداد، تیونس میں بھی ریلیاں نکلیں۔ سعودی عرب متحدہ عرب امارات سے ایسی خبریں نہیں ملیں۔ پاکستان میں سب ہی شہروں میں مظاہرے ہوئے مگر کراچی میں جماعت اسلامی کی ریلی کو مغربی میڈیا نے اہمیت دی اس میں تعداد متاثر کرنے والی تھی۔

78سالہ امریکی صدر جوبائیڈن کو اپنی ضد توڑ کر اسرائیل کو فائر بندی کے لئے کہنا پڑا۔ اسرائیل کے سفاک کرپٹ اور اقتدار کو طوالت دیتے 71سالہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بھی اپنی فوجوں کو لگام دینا پڑی۔ مظلوم فلسطینیوں نے 212جانوں کی قربانی دی جن میں 61بچے اور 35مائیں بہنیں شامل ہیں۔ انہیں ایک طرف تو حماس کے جوابی راکٹوں سے سہارا ملا کہ کوئی تو ان کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ کے ان مظاہروں سے بھی تسکین میسر آئی کہ عالمی رائے عامہ اُن کے حق میں ہے۔

مغربی میڈیا بھی تسلیم کررہا ہے کہ اسرائیل کا پودا کاشت کرنے والے برطانیہ کے دارُالحکومت لندن کا مظاہرہ برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ تھا جہاں 1لاکھ80 ہزار افراد اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ اسرائیلی اور نازیوں میں مماثلت پر زور دیا گیا۔ بنجمن نیتن یاہو کو ہٹلر سے بد تر قرار دیا گیا۔ لندن جیسے شہر میں احتجاج کے لئے ایک دو ہزار جمع کرنا بھی مشکل ہوتا ہے وہاں ایک لاکھ سے کہیں زیادہ کااجتماع برطانوی شہریوں کے جذبات کی عکاسی کررہا ہے کہ وہ اسرائیل کی سفاکیت کو امن عالم کے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔

اسرائیل نے یہ لڑائی شروع کیوں کی؟ اسرائیلی اخبارات کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمات موجود ہیں لیکن وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے استثنیٰ ہے۔ اس استثنیٰ کو برقرار رکھنے کے لئے وہ اقتدار کو طول دے رہا ہے۔ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت رہا ہے۔ غزہ آپریشن کو اخبارات نے بے مقصد بے سمت قرار دیا۔ اسرائیلی حکومت نے تو دعویٰ کیا تھا کہ اس جارحانہ کارروائی سے وہ حماس کی قوت کمزور کررہے ہیں۔

اس کارروائی سے حماس کو فلسطینیوں میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس کی پہل اسرائیلی پولیس نے یروشلم کے قدیم شہر میں رمضان کے مبارک مہینے میں بابِ دمشق پر ناکے لگانے سے مسلمانوں کو اس طرف سے نماز کے لئے روکنے کے لئے کی تھی۔وہیں سے فلسطینی مزاحمت کی ابتدا ہوئی۔ فلسطینیوں نے دنیا کو باور کروایا کہ بیت المقدس پر صرف یہودیوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ یروشلم سے اسرائیلی فوجوں کو نکالا جائے۔

اسرائیلی جارح سیاست دان فلسطینی صدر محمود عباس اور 63سالہ وزیر اعظم محمد عشطیہ کی کمزور قیادت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ محمود عباس جنوری 2005 سے بر سر اقتدار ہیں۔ نئے الیکشن کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی کرتے رہتے ہیں۔ خود فلسطینی میڈیا کہتا ہے کہ انہوں نے ان 16برسوں میں فلسطین کے لئے اندرونی اور عالمی سطح پر کوئی کارِ نمایاں نہیں کیا ہے۔ 

ایک سابق فلسطینی وزیر مصطفیٰ برغوثی کا کہنا ہے کہ اب فلسطینیوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ جدو جہد پُر امن ہی رہے یا مسلح اور اس کا آغاز کب کیا جائے؟ انہیں محمود عباس سے ہمدردی ہے امریکیوں اور اسرائیلیوں نے ان سے جو وعدے کیے وہ پورے نہیں کیے۔ اس لئے محمود عباس ناکام رہے۔ 61سالہ مروان حبیب ابراہیم البرغوثی ایک چیلنج بن کر ابھر رہے ہیںجو پہلے اور دوسرے انتفادہ کے لیڈر بتائے جاتے ہیں۔ 

اگر الیکشن ہوں اور آزادانہ ہوں تو وہ زیادہ ووٹ لے سکتے ہیں۔ انہیں یاسر عرفات کے بھتیجے ناصر القدوا کی حمایت حاصل ہے۔ ایک لیڈر محمد ضالان بتائے جاتے ہیں جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ امارات اور اسرائیل کو قریب لانے میں ان کا کردار ہے۔ حماس کو دہشت گرد تنظیم کہتے ہیں۔ عالمی برادری ان کی حمایت کرتی ہے۔ فلسطین سے باہر رہنے کے باعث ان کو فلسطینیوں میں مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ 

فلسطینیوں کی اس سیاسی محاذ آرائی سے بھی نیتن یاہو فائدہ اٹھارہے ہیں۔آخر میں ذکر ہوجائے حماس کے قسامہ راکٹوں کا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق 4ہزار راکٹ برسائے گئے ۔ اسرائیل اپنے دفاعی نظام کو آئرن ڈوم کہتا ہے۔ اس کا الزام ایران پر ہے کہ یہ راکٹ وہ حماس کو فراہم کررہا ہے۔ راکٹ وزن میں ایک کلو سے پندرہ بیس کلو تک ہے۔ اِس کا اثر اتنا عسکری نہیں ہے جتنا نفسیاتی ہے۔

مشکل یہ ہے کہ مقبولیت حماس کو حاصل ہورہی ہے مگر وہ عالمی پابندیوں کے باعث الیکشن جیت کر حکومت بنانے کی اہل نہیں ہے۔ مروان برغوثی۔ ناصر القدوا۔ مروان کی سرگرم اہلیہ فدوہ برغوثی اگر حماس کے 59سالہ لیڈر اسماعیل ہانیہ کی عوامی طاقت ساتھ ملالیں تو فلسطین میں ایک طاقت ور حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ جو فلسطینیوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے اور ایک باقاعدہ آزاد خود مختار ریاست وجود میں لانے کے لئے عالمی برادری کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ ورنہ یہ ضعیفی جاری رہے گی۔اقبال کہہ گئے ہیں:

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔