29 مئی ، 2021
19مئی کے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ”افغانستان دھنس اور پاکستان پھنس گیا“ میں جب مَیں اس رائے کا اظہار کررہا تھا کہ شاید امریکہ جان بوجھ کر افغانستان کے حالات کو خراب اور پاکستان کو تنگ کررہا ہے تو اُس وقت میری غالب رائے یہی تھی لیکن پھر بھی سو فیصد یکسو نہیں تھا، اس لئے کالم کا آغاز اس فقرے سے کیا تھا کہ ”ہلکی سی امید اب بھی باقی ہے“ تاہم گزشتہ چند روز کے اندر افغانستان میں ہونے والے واقعات، جرمن میگزین DER SPIEGELکے ساتھ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کے انٹرویوز نے میرے اس خدشے کو مزید تقویت بخشی کہ امریکی راستہ روکنے کی بجائے جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں۔
ان پریشان کن واقعات کا اجمال یہ ہے کہ عید کےتین روز کی جنگ بندی کے بعد طالبان نے افغانستان کے طول وعرض میں ایک ایسی جنگ چھیڑ دی ہے جس کی گزشتہ دس پندرہ سال میں مثال نہیں ملتی۔ جنوبی اور مشرقی افغانستان میں تو ان کی کارروائیاں پہلے سے جاری تھیں لیکن اس دوران انہوں نے انتہائی شمال میں واقع کندوز، انتہائی مغرب میں واقع جوزجان، شمال مشرق میں چین، پاکستان اور تاجکستان کی سرحدوں سے ملحق نورستان و بدخشان میں بھی زبردست جنگ شروع کردی ہے۔ جب یہ کالم تحریر کیا جارہاہے تو افغانستان کے ایک درجن سے زائد صوبوں کے مختلف علاقوں میں افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان کی بھرپور جنگ جاری ہے۔ لغمان جیسے صوبے میں بھی طالبان نے ہیڈکوارٹر مہترلام پر قبضے کے لئے حملہ کیا ہے جہاں گزشتہ برسوں میں مکمل خاموشی تھی۔ ان جنگوں کے نتیجے میں کئی جگہوں پر افغان مہاجر بن گئے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے جرمن میگزین DER SPIEGEL سے انٹرویو میں امریکی بے وفائی کی شکایت کی ہے لیکن زیادہ ملبہ پاکستان پر ڈالا ہے بلکہ اس الزام کا بھی اعادہ کیا ہے کہ اب جو کچھ ہے پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب امریکہ کا رول کم ہو گیا ہے اور افغانستان میں امن کے لئے جو کچھ کرنا ہے، وہ پاکستان نے کرنا ہے۔ انہوں نے اس الزام کابھی اعادہ کیا ہے کہ طالبان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔ اگر طالبان جنگ جاری رکھیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان جنگ کے ذریعے افغانستان پرقبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن دوسری طرف انہوں نے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے جو شرائط رکھی ہیں، وہ کسی صورت طالبان کوقابلِ قبول نہیں۔ ان کے انٹرویو کا لب لباب یہ ہے کہ طالبان سیاسی حل نہیں چاہتے۔ ان کی حکومت ان سے لڑے گی اور یہ کہ امریکہ اور یورپ کو اس جنگ میں افغان حکومت کی مدد کرنی چاہئے اور پاکستان پر دبائو ڈالنا چاہئے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے DER SPIEGELکے ساتھ انٹرویو میں پاکستان کے بارے میں سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے طالبان کو پاکستان سے جوڑا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن نہیں چاہے گا اس لئے انہوں نے اس مصالحتی عمل کو اہمیت دی ہے جس میں روس اور چین بھی شامل ہوں۔ پہلے سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ: میں نے اپنی صدارت کے بالکل ابتدائی دنوں میں محسوس کیا کہ یہ جنگ افغانوں کی جنگ نہیں بلکہ غیرملکی طاقتیں افغانوں کو ایک دوسرے سے لڑا رہی ہیں۔ برزنسکی جیسے سابق امریکی عہدیداروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے حامدکرزئی کہتے ہیں کہ خود امریکی مانتے ہیں کہ انہوں نے سوویت یونین کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے نہ صرف اسلامی انتہاپسندی کو فروغ دیا بلکہ اس کے گرد (بحرانوں کے قوسین) بھی بنا دیے۔ اب افغانستان امریکہ، روس اور چین کی مخاصمتوں کا میدان بن گیا ہے ۔
یہ بات صرف حامد کرزئی تسلیم نہیں کررہے ہیں بلکہ امریکی بھی اب اس بات کو نہیں چھپاتے کہ اب ان کا نمبرون حریف اور ہدف چین ہے اور ظاہر ہے کہ اس خطے میں چین کا نمبرون حلیف اور دوست پاکستان ہے جس کے سی پیک کے ذریعے ہی چین سمندر تک پہنچ رہا ہے اور اگر افغانستان میں امن ہو تو اسی راستے سے ہی وسط ایشیا جائے گا۔ اگر افغانستان میں امن آتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور چین کوہوگا اور بدامنی کا سب سے زیادہ نقصان ان دونوں ممالک کو ہوگا۔اب اگر امریکہ سوویت یونین کے مقابلے کے لئے اس کے گرد بحرانوں کے قوسین بنارہا تھا تو چین اور پاکستان کے لئے کیوں نہیں بنائے گا؟ جبکہ وہاں سے دو اور حریفوں یعنی ایران اور روس کے لئے بھی مشکلات کھڑی کی جاسکتی ہیں۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ امریکہ طالبان اور پاکستان کو لڑانے کی کوشش کرے گا۔
کچھ مثالیں گزشتہ کالم میں دی تھیں۔ اب حالیہ شرارت دیکھیں کہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے لیکن پاکستان سے اڈے مانگ رہا ہے۔ پاکستان نے اڈے دیے ہیں اورنہ دینے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن امریکہ کے زیراثر میڈیااور افغان میڈیا میں یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ پاکستان نے اڈے دےدیے، جس کے جواب میں طالبان نے پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دھمکی نما بیان دے دیا کہ اگر پڑوسی ملک نے اڈے دئیے تو اچھا نہیں ہوگا۔
امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے ایک کامیابی یہ حاصل کی ہے کہ طالبان سے قطر معاہدے کی صورت میں یہ گارنٹی لے لی گئی ہے کہ وہ القاعدہ وغیرہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ اب اگر افغان ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور اس کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے لئے مشکلات بنتی ہیں تو امریکہ کو کیا؟ اس کے فوجی نکل جائیں تو پھر اسے کس چیز کی پروا ہے اور جو پیسہ وہ ابھی تک جنگ پر خرچ کررہا تھا اس کا اگر آٹھ دس فی صد بھی یہاں کے مسلح گروہوں پر خرچ کرے تو انہیں کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں اب میرا یہ شک یقین میں بدلتا جارہا ہے کہ امریکی جان بوجھ کر افغانستان کو تباہ کن خانہ جنگی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے میں گزارش کررہا ہوں کہ چین، روس، ایران اور پاکستان کو اپنا الگ گروپ بنا کر ہنگامی اور جارحانہ سفارتکاری کے ذریعے افغان متحارب فریقوں کو مفاہمت پر آمادہ کرنے اور امریکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔