کھیل

والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں، عثمان قادر

شروع میں ان پر یہ دباؤ تھا کہ عبدالقادر کا بیٹے ہیں اور ان کے نام کا خیال رکھنا ہے، اسپنر عثمان قادر— فوٹو:فائل

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ٹیم ملتان سلطانز میں شامل اسپنر عثمان قادر کہتے ہیں کہ کراچی میں ہونے والے میچز میں اسپنرز کیلئے مشکلات تھی لیکن ابوظبی میں ایسا نہیں ہوگا، یہاں اسپنرز پر ہٹ کرنا آسان نہیں ہوگا۔

جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں 27 سالہ عثمان قادر نے کہا کہ یو اے ای کی کنڈیشنز ویسے بھی اسپنرز کو مددگار ثابت ہوتی ہے اور وہ پاکستان سپر لیگ 6 کے بقیہ میچز میں اچھے کھیل کیلئے پر امید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں میچز کے دوران فاسٹ بولرز زیادہ مؤثر رہے لیکن یو اے ای میں اسپنرز کو سپورٹ ملے گی کیونکہ کراچی میں چھوٹی باؤنڈریز اور فلیٹ وکٹ تھی جس میں اسپنرز رنز روکنے کی طرف جارہا تھا تاکہ بڑی ہٹس نہ لگے لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ایک دو اچھے شاٹس آپ کی فگرز خراب کردیتے ہیں، یو اے ای میں ہٹس لگانا آسان نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہدف یہی ہے کہ جو بھی میچ کھیلیں اس کو پروفیشنل انداز میں کھیلیں اور یہ سوچ کر کھیلیں کہ یہ ان کا آخری میچ ہے، اس میں اچھا کرنا ہے۔

عثمان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ایک بیٹسمن کو ٹارگٹ نہیں کررہے، کوشش یہی ہے کہ جو بھی بیٹسمین سامنے ہو اس کیخلاف اچھی بولنگ کرتے ہوئے اس کو آؤٹ کرنے کی کوشش کریں۔

ملتان سلطانز کے اہداف پر بات کرتے ہوئے قومی ٹیم کے اسپنر نے کہا کہ ٹیم کیلئے اہداف یہی ہے کہ پانچوں میچز جیت کر اگلے مرحلے میں جگہ پکی کرے، ہر ٹیم کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ ٹورنامنٹ کا اچھا اسٹارٹ نہ ہو تو پھر آخر کے میچز میں اچھا کرکے کم بیک کرے اور ہماری بھی یہی کوشش ہوگی۔

ایک سوال پر پاکستان کی جانب سے گیارہ ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے والے اسپنر نے کہا کہ پی ایس ایل فائیو ان کے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، انہیں جب موقع ملا تو بولنگ کافی اچھی رہی، جس میچ میں کرس لین نے سنچری کی تھی اس میچ میں ان کی انفرادی پرفارمنس کافی اچھی رہی۔

عثمان نےاس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جو بیٹسمین سب کیخلاف شاٹس مار رہا تھا اس کے خلاف اچھی بولنگ کرکے مجھے اعتماد ملا اور جب انٹرنیشنل کیرئیر شروع ہوا تو اس اعتماد نے میری مدد کی"۔

لیجنڈ بولر عبدالقادر کے صاحبزادے عثمان قادر نے مزید کہا کہ شروع میں ان پر یہ دباؤ تھا کہ عبدالقادر کا بیٹے ہیں اور ان کے نام کا خیال رکھنا ہے، ان کی وراثت کو آگے لے کر چلنا بڑی ذمہ داری ہے، کوشش ہوتی ہے کہ والد کے نقش قدم پر چلوں اور جو ان سے سیکھا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اچھا پرفارم کروں اور ان کا نام روشن کروں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستا ن میں اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ اگر کرکٹر کا بیٹا سلیکٹ ہوا ہے تو وہ اپنے والد کی وجہ سے ہوا ہوگا لیکن ایسا ہوتا نہیں، اس کی محنت کو کوئی نہیں دیکھتا، کوئی بھی آگے آتا ہے وہ اپنی محنت سے آتا ہے، اگر ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور وکیل کا بیٹا وکیل ہوسکتا ہے تو کرکٹر کا بیٹا کرکٹر کیوں نہیں ہوسکتا، انگلینڈ میں بھی تو ایسا ہوتا ہے ، براڈ کی مثال سامنے ہے، اگر ٹیلنٹ نہیں ہو تو کوئی آگے نہیں آتا۔

مزید خبریں :