سندھ کی نئی قاف لیگ یا پگاڑا لیگ

جمہوریت کے حوالے سے سب سے زیادہ توقعات پیپلز پارٹی سے وابستہ تھیں کیونکہ یہ جماعت جمہوریت کے حوالے سے سب سے طویل اور قابلِ فخر تاریخ کی حامل ہے اور آج بھی اس کی صفوں میں رضاربانی، قمرزمان کائرہ، چوہدری منظور، تاج حیدر،مولابخش چانڈیو، یوسف رضاگیلانی، سید خورشید شاہ اور متعدددیگر سمجھدار، باوقار اور رموز مملکت و سیاست سمجھنے والے لوگ موجود ہیں لیکن افسوس کہ پہلے زرداری صاحب نے اور پھر بلاول صاحب اس جماعت کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔

قومی سطح پر اقتدار ملا تو اس جماعت کی پہچان کرپشن بن گئی۔ سندھ میں برسوں سے پیپلز پارٹی حکمران ہے لیکن معذور کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بے نظیر بھٹو کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا اور پیپلز پارٹی کو وفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن زرداری صاحب اور بلاول صاحب نے اسے سندھ تک محدود کردیا۔ 

سندھ کی حکومت ان کی مجبوری بن گئی ہے لیکن افسوس کہ کسی دور میں بھی وہ سندھ کو اچھی حکمرانی نہ دے سکے۔ بلاول بھٹو نوعمری میں محترمہ کی وصیت کی بنیاد پر چیئرمین بنائے گئے اور ابتدا میں ان سے بڑی توقعات وابستہ کی گئیں۔ ان کے ابتدائی دنوں کے بیانات اور تقاریر ایسی رہیں کہ ہم جیسے پیپلز پارٹی کے ہمدرد ان کو زرداری کی بجائے بے نظیر بھٹو کا جانشین سمجھنے لگے لیکن افسوس کہ بہت جلد وہ بھی زرداری صاحب کی جوڑ توڑ کی سیاست کا حصہ بن گئے بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔

پیپلز پارٹی کا اس وقت المیہ یہ ہے کہ وہ بظاہر جمہوریت کی علمبردار لیکن درپردہ غیرجمہوری قوتوں کی آلہ کار ہے۔ وہ بظاہر اپوزیشن کا حصہ ہے لیکن درپردہ پی ٹی آئی سے زیادہ تابع فرمان ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کوئی گیم بنائیں یا پھر مسلم لیگ(ن) تو پیپلز پارٹی عمران خان کے سرپرستوں کے کہنے پر اسے ناکام بنادیتی ہے۔ 

جب سارے معاملات زرداری صاحب کے کنٹرول میں تھے تو وہ پارٹی کے اندر جینوئن جمہوریت پسندوں اور مصلحت پسندوں کو ساتھ ساتھ چلارہے تھے لیکن بلاول بھٹو چن چن کر پارٹی میں موجود جینوئن جمہوریت پسندوں کو پیچھے دھکیل کر ابن الوقتوں کو آگے لارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دوغلی سیاست کے حالیہ سلسلے کا آغاز انتخابات سے قبل ہوا تھا۔

 بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات میں مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی نے خریدوفروخت کی۔ رضاربانی سے زیادہ مناسب چیئرمین سینیٹ کا امیدوار کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا جن کا اس اٹھارویں ترمیم کی تیاری میں بنیادی کردار تھا جس کا اٹھتے بیٹھے زرداری صاحب اور بلاول صاحب کریڈٹ لیتے ہیں لیکن انہوں نے رضاربانی کی بجائے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا ۔

 زرداری صاحب اور بلاول صاحب کا یہ خیال تھا کہ اس خدمت گزاری کے صلے میں انہیں انتخابات میں بڑا حصہ دیا جائے گا لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ سندھ میں ان کے مقابلے میں جی ڈی اے کے غبارے میں ہوا بھری جارہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے منت ترلہ شروع کردیا۔ اس منت ترلے کے نتیجے میں انہیں سندھ دوبارہ حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی لیکن ان سے یہ یقین دہانی لی گئی کہ انتخابات کے بعد بھی وہ خدمت گزاری جاری رکھیں گے۔

 انتخابات سے قبل اور انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا، اس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے سوا کوئی بھی جماعت نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی رائے یہ تھی کہ اسمبلی میں نہ بیٹھا جائے لیکن چونکہ زرداری اور بلاول پہلے سے وعدے کرچکے تھے، اس لئے وہ نہ صرف خود اسمبلی میں بیٹھے بلکہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی اسمبلی میں بیٹھنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے اس مشکوک الیکشن اور اسمبلی کو سند جواز مل گئی۔

 اس کے بعد بھی مولانا فضل الرحمٰن اور اچکزئی وغیرہ کوشش کرتے رہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کریں لیکن اس کی قیادت وقت گزارتی رہی اور اپوزیشن کی طرف سے کسی بھی تحریک کا حصہ بننے کو تیار نہ ہوئی تاہم عمران خان اس کے باوجود ان کو معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چنانچہ زرداری صاحب اور ان کی بہن کو قومی احتساب بیورو کے ذریعے پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بلاول صاحب انقلابی بن گئے اور مولانا فضل الرحمٰن وغیرہ کے ساتھ میل ملاپ بڑھا لیا۔

 مولانا نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی نے انہیں تنہا چھوڑ دیا تاہم اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے رعایتیں لے لیں جس کے بعد پیپلز پارٹی پھر متحدہ اپوزیشن سے دور ہوگئی لیکن عمران خان نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اس دوران سندھ حکومت بھی پیپلز پارٹی سے چھیننے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا جبکہ کیسز کا دائرہ بھی وسیع ہونے لگا۔ 

یہ وہ وقت تھا کہ جب زرداری اور بلاول ایک بار پھر جمہوریت پسند اور انقلابی بن گئے۔ چنانچہ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی طلب کی جس میں پی ڈی ایم کی بنیاد رکھی گئی۔ بلاول بھٹو ایسی انقلابی تقاریر کرنے لگے کہ وہ بلاول زرداری نہیں بلکہ بلاول بھٹو دکھائی دینے لگے۔ گوجرانوالہ میں جب میاں نواز شریف نے نام لئے تو اسٹیج پر بیٹھے بلاول بھٹو کو کوئی دھچکا نہیں لگا بلکہ وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہورہے تھے۔ 

اس دوران پی ڈی ایم کا دباؤ بڑھنے لگا کیونکہ استعفوں اور اسلام آباد کی طرف مارچ کا وقت قریب آرہا تھا، نواز شریف اور مولانا کا لہجہ بھی تلخ ہونے لگا۔ اس دوران مولانا فضل الرحمٰن سے بہت رابطے ہوئے اور ان کے ساتھ ڈیل کی کوششیں زور پکڑنے لگیں لیکن وہ یہ کہہ کر ڈیل کرنے سے انکار کرتے رہے کہ جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوگا۔

 تاہم اس دوران زرداری صاحب اور بلاول صاحب اپنی ڈیل طے کرنے کی کوششوں میں لگے رہے اور جب ڈیل طے ہوگئی تو اس کا پہلا اظہار بلاول صاحب نے گلگت میں نواز شریف کی گوجرانوالہ والی تقریر سے دھچکا لگ جانے کی صورت میں کیا۔ جو تقریر ڈیڑھ ماہ قبل گوجرانوالہ میں ہوئی تھی لیکن بلاول صاحب کو دھچکا کئی ہفتے بعد گلگت میں لگا۔پی ڈی ایم کو تڑوانے کا ٹاسک بھی انہوں نے خوش اسلوبی سے پورا کردیا۔ 

جو ڈیل طے پائی ہے اس کی رو سے سلیکٹڈ پر تنقید کی تو اجازت ہے لیکن سلیکٹرز کا ذکر نہیں ہوگا اور ماشاء اللہ بلاول صاحب اس شق کی پوری پاسداری کررہے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے سندھ حکومت کے تحفظ اور کیسز میں رعایتوں کی سہولت حاصل کرلی ہے۔

 ڈیل کی ایک شق یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن کو متحد نہیں ہونے دے گی اور وقتاً فوقتاً نون لیگ کے خلاف بیانات دے کر بلاول صاحب یہ خدمت بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ڈیل کے تحت پیپلز پارٹی کو یہ بھی لالچ دیا گیا کہ پنجاب میں اس کے دیگرپارٹیوں میں جانے والے لوگوں کو واپس پیپلز پارٹی میں شامل کیا جائے گا اور کسی حد تک وہ سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے۔ 

قوم توقع لگائے بیٹھی تھی کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو دوبارہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت بنا دیں گے لیکن افسوس کہ ان کی بجائے زرداری کا جانشین بن کر انہوں نے اسے قومی کی بجائے سندھ کی جماعت بنا دیا۔ پیپلز پارٹی سندھ کی جماعت بن گئی لیکن وہ بھی مسلم لیگ(ق) یا پگاڑا لیگ جیسی ایک جماعت۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔