بلاگ
Time 08 جولائی ، 2021

افغانستان سے امریکی انخلا، خطےکو درپیش نیا چیلنج

پچھلے چند ہفتوں کےدوران طالبان نے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم صوبوں ہرات، باغدیس، فریاب، جوزجان،بلخ ،قندوز ،تاخر، بدخشاں اور نورستان میں کئی اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے— فائل فوٹو
پچھلے چند ہفتوں کےدوران طالبان نے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم صوبوں ہرات، باغدیس، فریاب، جوزجان،بلخ ،قندوز ،تاخر، بدخشاں اور نورستان میں کئی اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے— فائل فوٹو

افغانستان سے امریکی انخلامکمل ہوتا دیکھ کر خطے کے ممالک خود کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ خانہ جنگی کاشکار ملک کے ہرپڑوسی کو خدشہ ہےکہ کہیں انخلاکے بعدکا افغانستان خطے کے لیے نیا خطرہ ہی نہ بن جائے۔

تیس جون کو قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کم سے کم ایک اہم مخمصہ دور کردیا۔ انہوں نے جرآت مندی سے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان امن کے معاملے پر امریکا کا ہمیشہ شراکت دار رہے گا۔

وزیراعظم نے ابھی یہ تو واضح نہیں کیا کہ امن کے لیے یہ پارٹنرشپ کس نوعیت کی ہوگی تاہم یہ ضرور واضح کردیا ہےکہ امریکی سی آئی اے کو فوجی اڈے نہیں دیے جائیں گے۔

کیا وزیراعظم کے ایسے بیانات سے پاک امریکا تعاون کے وسیع تر موضوع پر عوام کی بحث ختم ہوجائے گی؟ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسکا جواب 'ناں' میں ملے گا۔ اس میں شک نہیں کہ پاک امریکا تعلقات میں بہت اتار چڑھاو رہے ہیں مگر ہوا یہی ہےکہ اکثرحکومتوں نےتسلیم کیا ہےکہ امریکا سے شراکت داری ہی میں ملکی مفاد تھا۔

1950 اور 1960 کی دہائی میں تونوبت یہ تھی کہ پاکستان کو امریکا کے ایشیائی اتحادیوں میں سب سے بڑا اتحادی کہا جاتا تھا۔ وقت بدلا ہے مگر شاید اسٹریٹیجک ڈائنامکس نہیں بدلے۔ اس لیےیہ عمل فطری ہے کہ پاکستان اور امریکا کےدرمیان بہتر پارٹنرشپ قائم ہو۔ ویسے بھی افغانستان سے امریکی انخلا ہورہا ہے اور واشنگٹن اس نسلی طورپر تقسیم ملک میں ،جہاں دہشتگردوں کے پنپنےکا ہرامکان موجود ہے،کوئی خلا برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستان کے لیے خدشات اس لیے بھی بڑھ سکتے ہیں کیونکہ کابل پر نظرقائم رکھنے کے خواہش مند امریکا سےقربت بڑھانے کے لیےخطے کے کئی دیگر ممالک پیش پیش ہیں۔

بھارت جس نے ہمیشہ طالبان کے خلاف افغان حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے، نئی صورتحال میں وہ بھی امریکا کی مدد سے طالبان سے راہ و رسم پیدا کرنےکی کوشش میں ہے۔ اگر بھارت کو ایک لمحے کے لیے نظرانداز بھی کردیا جائے تو کئی دیگر ممالک ایسے ہیں جو پہلےہی کئی قدم آگے کھڑے ہیں۔

ترکی ہی کو لیں، ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے تحت اس ملک کے پانچ سو فوجی افغانستان میں نیٹو کے تحت موجود ہیں۔ ترکی طویل عرصے سے ٹرانزٹ روٹ کے طورپر بھی خدمات پیش کیے ہوئے ہے۔اب بائیڈن اردوان ملاقات کے نتیجےمیں ترکی نے کابل ائیرپورٹ کا سیکیورٹی انتظام ،امریکی انخلا کے بعدبھی سنبھالے رکھنے کا منصوبہ منظور کرا لیا ہے۔

کابل ائیرپورٹ اس وقت نہ صرف مختلف ممالک کےسفارتکاروں بلکہ کنٹریکٹرز اور سیکیورٹی اہلکاروں کی لائف لائن ہے۔ اس ائیرپورٹ کے تحفظ کی ذمہ داری جاری رکھنے کا مطلب ہے کہ عالمی برادری کے لیے ترکی اب افغانستان میں گیٹ وے ہوگا۔ یعنی جنگ سے بدحال افغانستان میں ترکی مختلف امور میں کلیدی کردار اداکرنے کے قابل ہوجائے گا۔ صدر اردوان کوبھی اپنی شخصیت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ایک نیا اسٹیج ملےگا۔

ترکی ہی نہیں وسط ایشیاکےکئی ممالک بھی وسیع ترکرداراداکرنےکے لیے خود کو پیش کررہےہیں۔ افغانستان کے پڑوسی ترکمانستان ، ازبکستان، تاجکستان ہوں یا قریبی ممالک آذربائیجان، قازقستان اور کرغزستان ،سب ہی کے لیے یہ نادر موقع ہےکہ وہ امریکا یا روس میں سے کسی ایک کو چن کر فائدہ مند سمجھوتے کرلیں۔

نیٹو رکن ترکی سے زیادہ وسط ایشیا کے انہی ممالک کا فیصلہ خطے کے مستقبل پر مہر ثبت کرے گا۔ وجہ واضح ہے کہ یہ وسط ایشیائی ممالک امریکا کے تین بڑے مخالفین روس،چین اور ایران کے پڑوسی ہیں ۔

ان وسط ایشیائی ممالک کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان کسی تنازع میں امریکا کا شراکت دار نہیں بنے گا۔فیصلہ کی گھڑی اس لیے بھی ہے کہ طالبان بلاخوف اور انتہائی تیزی سے افغانستان کے شمال اور شمال مشرقی صوبوں میں اضلاع پر قابض ہورہےہیں۔

پچھلے چند ہفتوں کےدوران طالبان نے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم صوبوں ہرات، باغدیس، فریاب، جوزجان،بلخ ،قندوز ،تاخر، بدخشاں اور نورستان میں کئی اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔یہی نہیں فراح اور نمروز میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔گرچے ان صوبوں کے دارلحکومتوں پر وہ ابھی قابض نہیں ہوئے مگر جس برق رفتاری سے طالبان پیش قدمی کررہے ہیں ، ایسامحسوس ہوتا ہےکہ چند ہفتوں میں یہ مرحلہ بھی بڑی حد تک مکمل کرلیا جائے گا۔

انفوگرافک اے ایف پی
انفوگرافک اے ایف پی

ان صوبوں کی اہمیت یوں بھی ہے کہ ہرات، باغدیس، فریاب، جوزجان اور بلخ کی سرحدیں ترکمنستان سے ملتی ہیں۔ بلخ کی سرحد نہ صرف ازبکستان سے بھی ملتی ہے بلکہ یہ افغانستان کا واحد صوبہ ہے جو قندوز ، تاخر اور بدخشاں کی طرح تاجکستان سے بھی جڑا ہوا ہے۔ نمروز اور فراح صوبوں کی سرحدیں ایران سےملتی ہیں جبکہ بدخشاں کی سرحد چین سے جڑی ہے۔

شمال اور شمال مشرقی علاقوں کی جانب طالبان کی غیرمعمولی پیش قدمی سے بعض ممالک صرف نظرکر بھی لیں مگر ازبکستان اور ترکمانستان چاہیں بھی تو ایسا نہیں کرسکتےکیونکہ اب آئے روز افغان فوجی پسپائی اختیار کرکے ان ملکوں میں پناہ کے طالب بن رہے ہیں۔

اس صورتحال میں افغانستان کے تقریباً تمام ہی پڑوسیوں کو خدشہ ہےکہ لاکھوں افغان پناہ گزیں ایک بار پھر ان کےممالک کا رخ کریں گے۔ اس بار پناہ گزینوں کے کلچر سے زیادہ اس بات کا ڈر ہےکہ داعش سے وابستہ دہشتگرد بھی پناہ گزینوں کےروپ میں کہیں خطے میں داخل نہ ہوجائیں۔

ماسکو، بیجنگ اور تہران کے لیے یہ تباہ کن صورتحال ہوگی۔ روس نے عشروں تک کوششیں کرکے چیچنیا کی صورتحال پر قابو پایا ہے، اسی طرح چین نے سنکیانگ میں حکومتی رٹ مضبوط کرنے کےلیے برسوں صرف کیے ہیں۔ بیجنگ کو خدشہ ہے کہ اگر داعش نے قدم جمائے تو سنکیانگ میں دہشتگردی کی نئی لہر جنم لےسکتی ہے اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کی ایک اہم لڑی کو بھی نقصان پہنچےگا۔

عدم استحکام سے بچنے کے لیے روس نے مشترکا دفاعی سمجھوتہ تنظیم یعنی سی ایس ٹی او کو مزید فعال کرنا شروع کردیا ہے۔ کریملن اب سی ایس ٹی او کے رکن قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کی حوصلہ افزائی کررہاہےکہ وہ نہ صرف افغان پناہ گزینوں پر نظر رکھیں بلکہ امریکا کو فوجی اڈے دینے سے بھی گریزکریں۔

یہی کوشش چین کی بھی ہےکہ کسی طرح داعش کے بڑھتے قدم روکے جائیں۔ یہ خطرات اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب افغانستان میں امن قائم ہو۔ مگر شاید یہ امن اب خانہ جنگی کے خاتمے پر ہی ممکن ہوگا۔

طالبان جو ابتدا میں افغان حکومت سے مذاکرات پرآمادہ تھے،اب وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پورے ملک پر نہ سہی ، وسیع ترحصے پر قبضہ مہینوں کی بات ہے۔انہیں یقین ہےکہ غنی حکومت کے دن گنےجاچکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طالبان نے کہا ہےکہ تحریری امن معاہدہ ایک ماہ میں ممکن ہوگا۔

ایک ایسی صورتحال میں جب ہزاروں فوجی ہتھیار ڈال رہے ہوں اور خانہ جنگی سے بچنے کے لیے لاکھوں افغان پڑوسی ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوں، اس غنی حکومت کو گڈ لک ہی کہا جاسکتا ہے جو اب بھی طالبان سے معاہدے میں پوری طرح سنجیدہ نہیں۔افغان حکومت اگر ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بناتی تو خطے کے ممالک بھی اس بلا کا سامنا کرنے سے بچ جاتے جو انخلا کے بعد منہ کھولے کھڑی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔