بلاگ

حکومت کے عجلت میں کیےگئے فیصلے

پاکستان میں جو بھی سیاسی حکمران آئے ان سب میں کچھ خصوصیات مشترک رہی ہیں۔ مثال کے طور پر الیکشن سے پہلے وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور حکمران بننے کے بعد ان کا پہلا بیان یہ ہوتا ہے کہ سابقہ حکومت کی کرپشن اور غیرملکی قرضوں کی وجہ سے ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو وہ کرپشن کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دیتے ہیں اور نہ ہی ملکی وسائل میں اضافے اور غیرملکی قرضے کی واپسی کی کوئی بہتر پالیسی بناتے ہیں بلکہ پہلے سے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے مزید قرض لے لیتے ہیں۔

دوسری مشترک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر وزیر کو وہی وزارت دیتے ہیں جو یا تو اس شعبے کو بالکل نہ جانتا ہو یا پھر سابقہ دورِ حکومت میں بغیر میرٹ کے اسی شعبے میں رہ کر کرپشن کرتا رہا ہو۔ 

تیسری مشترک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کئی قسم کے سروے اور اعداد و شمار کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے دور میں جی ڈی پی کی شرح اتنے فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ سابقہ دور میں اتنی تھی، غیرملکی سرمایہ کاری میں اتنا اضافہ، اتنے بیرونی قرضے ادا، اتنے ری شیڈول اور اتنے معاف ہو گئے۔ 

سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان اعداد و شمار کو صحیح معنوں میں پرکھنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہے کیونکہ ماضی میں ایسے بہت سے سروے اور اعداد و شمار بعد میں جعلی ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ہم یہی پیمانہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے استعمال کریں تو ہمیں کارکردگی کا اندازہ خود بخود ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب حکومت ایک بل کے ذریعے پرائیویسی کی خوبصورت اور دلکش اصطلاح شخصی آزادی کا وہ مفہوم لائی ہے جو گھروں کی دیواریں زمیں بوس کرنے والی ہے۔ سینیٹ میں Domestic Violanceکے نام پر خاموشی اور عجلت سے پاس کیا جانے والا بل مسلم خاندانی نظام کی توہین ہے۔

 اس بل سے خاندان کے سربراہ کی حیثیت پر ضرب لگائی گئی ہے، اپنے گھر کو جوڑ کر رکھنے والا سربراہ، شب و روز خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے اور اولاد کے لئے مشقت کرنے والا باپ، شریکِ حیات اور اولاد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے اپنی جوانی اور توانائیاں اور صلاحیتیں کھپانے والی ہستی اگر وہ اپنی اولاد یا بیوی کو کسی ایسی چیز سے روکتے ہیں جسے وہ اپنے مذہب اور معاشرت سے متصادم پائیں گے تو وہ گھریلو تشدد کے مرتکب ٹھہرائے جائیں گے۔ 

اس بل نے ڈومیسٹک وائلنس کے نام پر باپ اور شوہر کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ بل کے ذریعے جس فکر و نظر کی ترویج کی جارہی ہے اور اس مزاج کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جو کہ مغربی مادر پدر آزادی کا کھلا اعلان ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو ختم کرکے پاکستان میڈیکل کمیشن بنایا تھا اور پاکستان میڈیکل کمیشن کا رینکنگ اسکینڈل بھی سامنے آگیا، پی ایم سی نے غیرقانونی رینکنگ جاری کرتے ہوئے من پسند کالجز کو گریڈ اے (A) سے نواز دیا۔

 تفصیلات کے مطابق پی ایم سی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے رینکنگ جاری کردی۔ میڈیکل کالجز کی رینکنگ جاری کرنے کا دائرہ اختیار صرف ’’ایچ ای سی‘‘ کا ہے لیکن پی ایم سی نے من پسند کالجز کے لئے رینکنگ جاری کی اور علامہ اقبال میڈیکل کالج سمیت دیگر سرکاری میڈیکل کالجز کو ایف گریڈ دے دیا۔

 پی ایم سی نے 2019کی Mockانسپکشن کی بنیاد پر من پسند کالجز کو اے کیٹگری میں شامل کردیا، پی ایم سی نے عدالت میں Mockانسپکشن 2019کو پبلک نہ کرنے کی یقین دہائی کروائی تھی لیکن اس سے بھی منحرف ہو گئی۔ قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ پی ایم سی نے سر آغا خان اور سی ایم ایچ کو(+A) کی کیٹگری میں شامل کیا جبکہ دونوں کالجز کے ممبرز کمیشن میں شامل ہیں، کمیشن میں شامل دونوں کالجز کے ممبرز نے خود ہی قوانین بنائے اور پھر خود ہی کالجز کی گریڈینگ کردی، سر آغا خان کا ممبر پی ایم سی بورڈ اور سی ایم ایچ کا جنرل سرجن بھی کمیشن میں شامل ہے۔

 پی ایم سی نائب صدر نے بھی تحریری طور پر کورٹ میں لکھ کر دیا تھا کہ کالجز کی رینکنگ جاری کرنے کا اختیار ایچ ای سی کا ہے، حیران کن طور پر پی ایم سی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات کو استعمال کرکے خود ہی غیرقانونی رینکنگ جاری کردی۔کمیشن کے ممبرز نے رولز 2020میں اے پلس کیٹگری کالجز کو مرضی کے مطابق فیس وصول کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، 

سر آغاخان میڈیکل کالج پہلے ہی 27لاکھ فیس وصول کررہا ہے اور اب مزید چھوٹ دے دی گئی ہے جبکہ دوسری جانب دیگر کالجز صرف 12سے 14لاکھ فیس وصول کررہے ہیں۔ جو کالجز پی ایم سی کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ان کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں گورنر سندھ عمران اسماعیل سے پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیوٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز انسٹی ٹیوشنز (پامی) کے وفد نے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی۔ وفد کے سربراہ پروفیسر رضی محمد نے گورنر سندھ کو بتایا کہ پامی ملک کو پیشہ ورانہ طور پر تربیت یافتہ ڈاکٹر فراہم کر رہا ہے۔ 

پامی کے وفد نے بتایا کہ پاکستان میں کل 160میڈیکل کالجز نجی شعبے کے ہیں، یعنی 60فیصد میڈیکل کالجز، یونیورسٹیز نجی شعبہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر رضی محمد نے گورنر سندھ سے درخواست کی کہ وہ پی ایم سی کی جانب سے پیش کر دہ سفارشات پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت سے بات کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔