بلاگ
Time 19 اگست ، 2021

امارت اسلامیہ افغانستان کے 21 ادارے

ہیلمٹ، وردیاں، بوٹ، پستول اور تمغے کاغذی ثابت ہوئے۔ پگڑیاں، قمیص، شلوار، کندھوں پر رومال(پٹو) اور چپل فتح مند ہوئے۔ امریکی ماہرین کہیں دانتوں میں انگلیاں دبائے۔ کہیں سر کھجاتے ہوئے۔ اکیسویں صدی میں سارے نقشے، سارے منصوبے، منطقی نتیجے کی آرزوئیں خاک ہوگئیں۔

امریکہ کی ہیبت۔ سپر طاقت۔ یورپ کی دانش اور بصیرت کے پرزے قندھار۔ ہرات۔ غزنی کے گلی کوچوں میں اڑ رہے ہیں۔ ساری ورکشاپیں۔ تربیتی کورس۔ تعلیمی سمسٹر۔ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ کابل کو اپنی پناہ میں لیتے پہاڑ کہہ رہے ہیں۔

افغان باقی۔ کہسار باقی

الحکم للہ۔ الملک للہ

امریکہ یورپ کی 20سالہ حکمت عملی کابل ایئرپورٹ پر افرا تفری کی صورت بکھر رہی ہے۔ طالبان نے کابل فتح کرلیا۔ کابل ایئرپورٹ دشمنوں کے پاس رہنے دیا۔ کتنے افغان دوڑ رہے ہیں ہانپ رہے ہیں۔یہ بھی کسی افغان ماں کے بیٹے ہیں۔ کسی باپ کا سہارا۔ یہ مغرب کے تدبر کے زخمی۔ یہ دوحہ معاہدے کے بسمل۔ جہاز کے پہیوں سے انسانیت زمیں پر گر رہی ہے۔

پورے افغانستان سے بھاگنے والی امریکی فوج ایئرپورٹ پر گولیاں چلارہی ہے۔ نئی تاریخ افغان لہو سے لکھی جارہی ہے۔ اکیسویں صدی کے طالبان کے دَور میں کرپٹ صدر اشرف غنی پورے آداب پروٹوکول کے ساتھ ایئرپورٹ سے رخصت ہورہا ہے۔ اس کے ایک کارندے کے ہاتھ میں دو پھولے ہوئے بیگ ہیں۔ ایک امریکی اس سے بیگ واپس لے رہا ہے ۔ بیسویں صدی کے مجاہدین کے دَور میں افغان کمیونسٹ صدر۔ نجیب ﷲ کو اقوام متحدہ کی تحویل سے لے کر ہلاک کرکے اس کی لاش لٹکائی جاتی ہے۔

امریکیوں کو سائیگان یاد آرہا ہے۔ ویت نام اب بھی امریکیوں کو دیوانہ بنادیتا ہے۔ اب افغانستان احساس جرم بن کر ان کی نسلوں کو نفسیاتی کشاکش میں مبتلا رکھے گا۔ اعلان ہورہا ہے۔ جنگ ختم ہوگئی ہے۔ جنگیں شروع کیوں ہوتی ہیں۔ جون میں شروع ہونے والی یہ جنگ تو یکطرفہ تھی۔

امریکہ افغانوں کو بھیانک ماضی سے نجات دلانے۔ اچھا مستقبل دینے کے دعوے کے ساتھ افغانستان میں لائو لشکر کے ساتھ اترا تھا۔ وہی ماضی اب افغانستان کا مستقبل بن کر ایوان صدر میں ایک وقار کے ساتھ داخل ہورہا ہے۔ ادھر اچھے مستقبل اور جمہوریت کی امید میں امریکیوں اوریورپیوں کا ساتھ دینے والے کابل ایئرپورٹ پر جہاز کے ساتھ لٹک رہے ہیں۔

واشنگٹن، نیو یارک، لندن،برلن، پیرس، برسلز، اوٹاوہ، ٹوکیو، انقرہ، اسلام آباد اور دہلی میں ٹی وی لائونجوں میں یہ دل دہلادینے والے مناظر دیکھنے والے کیا اپنے حکمرانوں کا احتساب کریں گے کہ وہ انسانیت کی ہلاکت کیلئے اتحاد کیوں بناتے ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں افغانستان کو روشن مستقبل دینے کے دعویدار اپنے افغان دوستوں کو آگ اور خون کے درمیان چھوڑ کر کیوں چلے گئے ہیں۔

امریکی تجزیہ کار ماتم کررہے ہیں کہ صدر بائیڈن کے فیصلے نے امریکہ کا غرور خاک میں ملادیا ہے۔ مکمل انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان کے گرد بچھی امریکی حفاظتی ڈھال ریزہ ریزہ ہوگئی ۔ افغان فوج اور انتظامیہ کی نا اہلی، ناقص منصوبہ بندی، مزاحمت سے معذوری اور افغانستان کو بھیانک ماضی سے بچانے کی مغربی کوششوں میں موجود کمزوریاں بے نقاب ہوگئیں۔ اور افغانستان کا وہی ماضی اب سخت انتقامی جذبے کے ساتھ پہلے افغانستان کا حال بن گیا اور اب مستقبل بن رہا ہے۔

امریکہ یورپ کے نوجوان اپنے بزرگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افغان فوج۔ تعداد میں طالبان سے چار گنا زیادہ۔ تربیت اور اسلحے میں کہیں بڑی۔ مقابلہ کیوں نہ کرسکی۔ بزرگ بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ اس فوج کے جنرل، بریگیڈیئر، کرنل سب کرپٹ تھے۔ عیاش تھے۔ 

امریکی تھنک ٹینک اب پچھتارہے ہیں کہ ہم نے افغانوں کو اپنے تصورات کے مطابق ایک قوم بنانا چاہا۔ ان کے تصورات اور مزاج کو سامنے نہیں رکھا۔ جنگ کو غیر ضروری طوالت دی۔دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے بعد عام افغانی کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب امریکی جارہے ہیں۔ طالبان آرہے ہیں۔ ہماری تقدیر بالآخر امارت اسلامیہ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس لئے طالبان کی مزاحمت نہیں کرنی چاہئے۔

اب افغانستان کا تخت تاج۔ مستقبل۔ تقدیر سب امارت اسلامیہ کے امیر المومنین اور ان کے رفقا کے ہاتھ آ رہی ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ان پر لگی ہیں کہ امن و امان۔ تعلیم۔ معیشت میں کیا پالیسیاں ہوں گی۔ یہ تو حقیقت ہے کہ افغانستان کے عوام امریکہ یورپ سے تو کیا مقابلہ اپنے ہمسایوں پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان کے عوام سے سماجی علمی اقتصادی۔ نظم و ضبط میں بہت پیچھے ہیں۔

طالبان نے اس سال اپنے ماہنامہ ’شریعت‘ کے مختلف شُماروں میں اپنے اسلامی نظام کے خدوخال مسلسل بیان کیے ہیں۔ اس بات پر زور ہے کہ اب افغان شمول حکومت ہوگی ۔( سارے افغان گروہوں کی مشترکہ) مغربی جمہوریت کو رد کرتے ہیں۔ عام انتخابات کے قائل نہیں ہیں۔ وہ اسلامی نظام کے تحت ترقی یافتہ رفاحی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کی انتظامی تشکیل کی موجودہ صورت یہ ہے:

امیر المومنین

نائب اول، نائب دوم، نائب سوم

مرکزی رہبری شوریٰ

1۔اعلیٰ عدلیہ کا ادارہ، 2۔دارُالافتا، فقہی مجالس و تخصصات کمیشن، 3۔کمیشن برائے عسکری امور، 4۔سیاسی دفتر، 5۔انٹیلی جنس کمیشن، 6۔تعلیم و تربیت و ہائی ایجوکیشن کمیشن، 7۔کمیشن برائے مالی و اقتصادی امور، 8۔دعوت و ارشاد، جلب و جذب کمیشن، 9۔کمیشن برائے امور صحت، 10۔کمیشن برائے میڈیا و ثقافتی و طباعتی امور، 11۔زراعت، حیوانات، عشر و زکوٰۃ کمیشن، 12۔قیدیوں کے امور کی تنظیم و رہائی کمیشن، 13۔رفاہی اداروں اور کمپنیوں کا کنٹرولر کمیشن، 14۔کمیشن برائے سرحدی امور، 15۔کمیشن برائے معدنیات و صنائع، 16۔عوامی نقصانات کی روک تھام و سمع شکایات کمیشن، 17۔بےسہارا، یتیموں اور معذوروں کے امور کا کمیشن، 18۔عسکری ٹیکنیکل و انجینئرنگ ادارہ، 19۔مرکزی ادارہ مالیات، 20۔دینی اشاعت کی نگرانی کا ادارہ، 21۔فدائی حملوں اور معسکرات کا ادارہ۔

میرے خیال میں تو تمام اہم شعبے شامل کرلئے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں انہیں وزارتیں کہا جاتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ امریکہ کے تربیت یافتہ ماہرین کو بھی کوئی فرائض سونپتے ہیں۔ آئیے ہم دُعا کریں کہ انتظامی تشکیل کے 21ادارے افغان عوام کی زندگی آسان کرنے۔ انہیں اقوام عالم میں با وقار مقام دلوانے میں کارگر ثابت ہوں۔ افغانستان کو سامراجوں کا قبرستان کہنا تو بر حق ہے لیکن افغانوں کو جدید سہولتیں۔ ریلوے۔ ٹرانسپورٹ۔ علو م و فنون بھی تو میسر ہونے چاہئیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔