Time 31 اگست ، 2021
بلاگ

مرد نہیں بدل سکتا؟

مبارک ہو، خوش آئند ہے کہ سب مل کر ’’یومِ ِحیا‘‘ منا رہے ہیں۔ حیا کے لئے ہمارے نبیؐ نے خود مرد عورت کی الگ الگ تخصیص نہیں کی۔ بلکہ دونوں کو ستر پوشی اور نگاہیں نیچی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 یہ سب پڑھے لکھے ہیں چاہے پاکستان میں مینار پاکستان پہ ہوں کہ رکشہ میں جاتی عورت کہ منڈی بہاؤالدین سے عورت اور بیٹی کو ہمارے مسلمان مرد، حیا کی تہذیب یہ سکھاتے ہیں کہ ان کے جسم اور کپڑے حتی المقدور پھاڑ دیتے ہیں۔

 طالبان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بدلے ہوئے طالبان ہیں۔ حکم نامے ہورہے ہیں کہ عورتیں گھروں میں رہیں۔ ان کو تنخواہ دی جائیگی۔ وہ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے، نوکری کے تجربے سے گزر کر عوام تک فلاح، علم اور تہذیب کے راستے کھول رہی تھیں۔ ان پر سارے مغربی ملکوں کے کہنے کے باوجود، کوئی اثر نہیں۔ اسکول کیا یونیورسٹیاں بند پڑی ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ ان دنوں میں افغانستان سے تجارت بڑھی ہے۔ افغان کہہ رہے ہیں کھانے کو آٹا نہیں مل رہا۔

ان سب باتوں کے ساتھ مشترک، شیری رحمان کی مرتب کردہ کتاب میرے سامنے ہے۔ جس میں 22 لکھنے اور تحقیق کرنے والی خواتین کے مضامین شامل ہیں۔ کتاب اور لکھنے والیوں نے زمانے کی کوئی قید سامنے نہیں رکھی ہے۔ زیادہ تر مضامین یادوں کے حوالے سے ہیں۔

 ورنہ کوئی تو یہ لکھتی کہ پاکستان نے CEDAWپر دستخط کتنی ردوکد کے بعد کئے تھے۔ کوئی یہ بھی بتاتی کہ خواتین نے پارلیمنٹ میں آنے کے بعد، کن کن قوانین میں ترامیم کرائی ہیں، جو خواتین کے خلاف تھے۔ البتہ ایک جگہ اپوا کو یاد کیا گیا ہے کہ ان کی کوشش سے عائلی قوانین پاس ہوئے تھے، جس میں آج تک اسلامی نظریاتی کونسل، جس میں ایک عورت بھی نہیں ہے، روز کوئی نہ کوئی تبدیلی کا شاخسانہ چھوڑتی رہی ہے۔

 شکر ہے اب تو عدالتوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ بالغ مرد اور عورت خود اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے شہروں اور دیہات میں ہر ہفتے غیرت کے نام پر قتل اسی باعث ہوتا ہے کہ دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ نابالغ بچیوں کی شادی، اور غیر مذہب کی لڑکی کا زبردستی مذہب بدل کر شادی ہمارے اندرونِ سندھ اور پنجاب میں کوئی انوکھی بات نہیں۔

شیری رحمان کی مرتب کردہ کتاب میں ایک اور خوش کن بات ہے وہ بھی شیری کی تحریر کردہ ہے۔ شیری نے تمام مضمون نگاروں کی تحریروں کا خلاصہ اپنے دیباچے میں دیدیا ہے۔ عائشہ رزاق بہت روشن خیال اور تعلیم کے شعبہ کی ماہر ہیں بہت اچھا مقالہ ہے مگر ہمارے 50فیصد دیہی اسکولوں میں ابھی تک لڑکیوں کے لئے الگ غسل خانے ہی نہیں۔

نئی اور پرانی ویف اور اس میں شامل خواتین کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1980ء میں جو ایکٹیوسٹ تھیں، ان میں سے کچھ بوڑھی ہوکر گھر میں بیٹھ گئی ہیں اور کچھ شاید، جوانی کا یہ سبق بھول گئی ہیں۔ ان کی جگہ گزشتہ چند برسوں سے عورت مارچ میں، بہت حد تک نوجوان لوگ شامل ہیں کہ ان کے سلوگن بھی، ان کے مزاج، طلب اور خواہش کے مطابق ہیں۔ 

پرانے لوگوں نے (جس میں میں بھی شامل ہوں) موومنٹ پہ تو اعتراض نہیں کیا لیکن ہماری تہذیب سے روگردانی Me tooکرتے سلوگن پر انگلی اٹھائی تھی جس پر نوجوان طبقے نے مخالفت کا طوفان اٹھایا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ لاپتہ لوگوں کے حوالے سے بچوں اور لڑکیوں کے اغوا اور ان کی لاشیں کوڑے پر پڑی ملنے پہ مظاہروں میں ہماری نوجوان نسل نے بہت اچھے سلوگن بنائے ہیں اور مظاہرے کئے ہیں۔ ہمارے ہی کیا جاپان اولمپکس میں بھی لڑکیوں کے لباس پر اعتراض کرنے والے مرد موجود تھے۔

شیری رحمٰن تعلیم یافتہ سیاست دان ایسی ہیں چنانچہ ذہن اور کتاب مرتب کرتے ہوئے،ہر مضمون کا ریفرنس اشاریہ، بہت مستحکم بنایا ہے۔ پاکستان کو سیاسی معاشی اور مذہبی سطح پر پیچھے چھوڑ دینے والی قوتوں، مذہبی انتہا پسندوں، بین الاقوامی سازشوں اور ان کے ملکی اور عالمی مہروں کے باعث، غربت اور آبادی میں اضافے کی بلاؤں کو مسلط رکھنے کو فیشن زدہ بے حس بیوروکریسی اور سیاست میں شاطر لوگوں کی ملی بھگت نے پاکستان کو جس جال میں پھنسایا ہے، اس کا احساس بھی مفقود ہے۔ 

شیری کے ساتھ کام کرنے والی ان 22خواتین نے اپنا قلم بہت محتاط سنجیدگی کے ساتھ چلایا ہے کہ دنیا کے قوانین کی مثالیں مناسب، مگر پاکستان میں نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین چاہے عائشہ جلال ہو کہ سارہ سلہری کہ عائشہ صدیقہ، یہ سب اپنا علم اور تحقیق دوسرے ممالک میں تقسیم کررہی ہیں۔ حنا جیلانی اور فریدہ سعید کو عالمی تنظیموں میں اہمیت حاصل ہے اور پاکستان میں!

اب آخر میں شیری جیسی دوست سے معافی مانگتے ہوئے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اتنی اچھی اور جامع کتاب کسی غیر ملکی اشاعتی ادارے سے کیوں شائع نہیں ہوئی۔ یہ اس لئے کہہ رہی ہوں، میری کتابیں جو پاکستان میں اور اردو میں شائع ہوئیں۔ ان کو گھاس نہیں پڑی اور جو غیر ممالک میں پڑھی گئیں اور شائع ہوئی ہیں۔ ان پر اکیڈیمیا والے روز ایک نہ ایک ریفرنس بھیج دیتے ہیں۔

یہ کتاب عالمی سطح پر پڑھی جانے والی کتابوں جیسی اہم اور عالمی توجہ چاہتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔