Time 11 ستمبر ، 2021
پاکستان

’اقبال پارک واقعے کے بعد عثمان بزدار کھل کر سامنے آئے اور وفاق کو واضح پیغام دیا‘

پنجاب میں مستحکم انتظامی ٹیم نہ بننے کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ عثمان بزدار کو وزیراعظم عمران خان نے وسیم اکرم پلس کا درجہ دے کرپنجاب کی کپتانی تو سونپ دی لیکن کھلاڑیوں کا چناؤ کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا— فوٹو: فائل
پنجاب میں مستحکم انتظامی ٹیم نہ بننے کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ عثمان بزدار کو وزیراعظم عمران خان نے وسیم اکرم پلس کا درجہ دے کرپنجاب کی کپتانی تو سونپ دی لیکن کھلاڑیوں کا چناؤ کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا— فوٹو: فائل

تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد 3 سال کے اندر جہاں دوسرے مسائل سامنے آئے وہاں پولیس اور انتظامیہ کو کنٹرول کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ رہا۔

 پنجاب میں اتنے چیف سیکرٹری اور آئی جیز تبدیل کیے گئے کہ گنتی کرتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں لیکن بتاتے چلیں کہ پنجاب میں کامران افضل پانچویں اور راؤ سردار خان ساتویں آئی جی پولیس تعینات ہوئے ہیں۔

پنجاب میں مستحکم انتظامی ٹیم نہ بننے کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ عثمان بزدار کو وزیراعظم عمران خان نے وسیم اکرم پلس کا درجہ دے کرپنجاب کی کپتانی تو سونپ دی لیکن کھلاڑیوں کا چناؤ کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا۔

 پنجاب میں کئی اہم عہدوں پر بھی اعلیٰ افسران وفاق کی جانب سے تعینات ہوتے رہے، ایک بار تو سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو شہزاد اکبر نے تعینات کروایا تھا، ایسے افسران وزیراعلیٰ کو خاطر میں نہیں لاتے اور براہ راست وفاق یعنی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی ہدایت پر چلتےہیں ، اس طرح معاملات سنبھلنے کے بجائے خراب ہوتے چلے گئے۔

پہلی بار یہ بات سامنے آئی کہ گریٹر اقبال پارک واقعے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کھل کر سامنے آگئے، وفاق کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ اگرکسی معاملے پرجواب انہوں نے دینا ہے تو ٹیم بھی ان کی اپنی دی جائے۔

 وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ تحفظات تھے کہ سابق چیف سیکرٹری جواد رفیق اور سابق آئی جی انعام غنی متحرک نہیں ہیں۔

 چیف سیکرٹری مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں اپنی ٹیم سے کام نہیں لے سکے اور زیادہ تر گھر میں بنائے ہوئے کیمپ آفس میں ہی رہتے تھے، ان کا لوگوں سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا۔

 اسی طرح سابق آئی جی پنجاب انعام غنی کے بارے میں بھی شکایت تھی کہ  وہ متحرک نہیں ہیں، کاغذی کارروائی میں لگے رہتے ہیں،حتیٰ کہ گریٹر اقبال پارک میں 13 اگست کی رات اور 14 اگست کی شام کو ہونے والے واقعات سے بے خبر تھے اور لاہور کے ڈی آئی جی، ایس پی بھی موقع پر نہیں گئے،حتیٰ کہ وزیراعلیٰ کے علم میں بھی میڈیا کے ذریعے آیا ، لہٰذا انہوں نے نئے نام وفاق کو بھیج دیے۔

چیف سیکرٹری کامران افضل پنجاب میں اہم عہدوں پر کام کرچکے ہیں اور اچھی شہرت کے حامل ہیں، وزیراعظم کو اگر چیف سیکرٹری پنجاب کا چناؤ کرنا ہوتا تووہ پینل میں شامل سیکرٹری کیبنٹ احمد نواز سکھیرا کا چناؤ کرتے جووزیراعظم کے قریب ہیں اور تحریک انصاف کے سینیٹر اور  معروف قانون دان علی ظفر کے سمدھی بھی ہیں لیکن عثمان بزدار کی جانب سے دیا ہوا نام ہی فائنل کیا گیا۔

 آئی جی پنجاب راؤ سردار کی تعیناتی پر بعض افسران نے اس بنا پر حیرانی کا اظہار کیا کہ راؤ سردار خان ایک ایسے افسر ہیں جو قانون کے مطابق ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں، وہ حکومت کے ساتھ کیسے چلیں گے؟ راؤ سردار ایک ایماندار پروفیشنل آفیسر ہیں، ان کو پنجاب میں اہم عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے ۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں ایک بار کوشش کی گئی کہ انعام غنی کو پنجاب میں کام کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے لیکن وزیراعظم نے کہا کہ جو عثمان بزدار نے نام دیا ہے وہی فائنل ہیں۔ 

سابق آئی جی انعام غنی، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بہت قریبی دوست ہیں جبکہ سی ایس ایس کے ایک ہی بیج سے ہیں اور  تربیت کے دوران بھی قریب رہے۔

مزید خبریں :