بلاگ
Time 18 ستمبر ، 2021

پاکستانی حکمران، طالبان اور امریکا

عمران خان، شاہ محمود قریشی اور معید یوسف وغیرہ سے میرا کوئی موازنہ نہیں۔ میں ایک عام پاکستانی اور کارکن صحافی ہوں جبکہ وہ حکمران ہیں۔

 ہم جیسے لوگ کچھ بھی کہیں، اس کا عالمی برادری میں پاکستان کے مقام و مرتبے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کی جزا و سزا ملک کو نہیں، میری ذات یا میرے ادارے کو ملتی ہے۔ تاہم ان شخصیات کے منہ سے ادا ہونے والے ہر لفظ کو سفارتی حلقوں میں تولا جاتا ہے اور اس کے مطابق پاکستان کو جزا یا سزا ملتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست پر ان کی خوشی عارضی یا مصنوعی ہوسکتی ہے لیکن میری خوشی حقیقی ہے۔ 

عمران خان کی طرح میرے بیٹے برطانیہ میں رہتے ہیں، نہ شاہ محمود قریشی کی طرح میرے صاحبزادے نے امریکی سفارتکاروں سے ٹریننگ لی ہے اور نہ معید یوسف کی طرح میں نے کسی امریکی تھنک ٹینک کے ساتھ کام کیا ہے(واضح رہے کہ معید ایک اچھے انسان اور مسلمان ہیں، ان کی حب الوطنی پر مجھے کوئی شک نہیں اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے وہاں رہ کر بھی پاکستان کے حق میں کام کیا)۔

میری زندگی امریکہ کے ہاتھوں ان سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اس خطے اور بالخصوص پختون پٹی میں امریکہ گزشتہ 40سال سے جو کھیل کھیل رہا ہے، اس سے مذکورہ تینوں شخصیات کے برعکس میں زیادہ متاثر ہوا ہوں۔ اس کھیل کی وجہ سے میری تعلیم متاثر ہوئی۔ پانچ مرتبہ موت کے منہ میں جاکر معجزانہ طور پر زندہ نکلا۔ اس گندے کھیل کی وجہ سے دو عشروں سے سیکورٹی ہی میرا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

 یوں ایک متاثر مسلمان، پختون اور پاکستانی ہونے کے ناطے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کی زیادہ خوشی مجھے ہی ہونی چاہئے لیکن میں نے پاکستانی حکمرانوں اور ترجمانوں کی طرح کوئی جشن نہیں منایابلکہ الٹا کئی حوالوں سے تشویش کا اظہار کرتا رہا۔ بالخصوص وزیروں مشیروں سے التجائیں کررہا ہوں کہ وہ زبان کا استعمال کم سے کم اور محتاط طریقے سے کریں لیکن وہاں ایک مقابلہ جاری ہے۔

 کبھی عمران خان اپنے آپ کو افغان امور کا ماہر ثابت کرنے کے لئے امریکہ پر تبراکرتے ہیں۔ کبھی شاہ محمود قریشی اپنی سیاست کی خاطر طالبان کی تعریفیں کرکے امریکہ کے قہر کو دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی معید یوسف امریکہ کو طعنے دے کر تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں امریکہ کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ ہمارے پاس اور آپشنز موجود ہیں۔ اب تو عارف علوی بھی اس میدان میں کود پڑےہیں۔

 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی خوشامد میں یہاں تک کہہ گئے کہ بیرونی دنیا کے سربراہان حکومت کو عمران خان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرلینی چاہئے۔ حالانکہ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ امریکا، چین اور روس جیسے ممالک کے سربراہان حکومت شاگردی سے تو واقف ہیں لیکن پیری مریدی سےنہیں۔ اس وقت روئے زمین پر پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو پیری مریدی کی بنیاد پر چل رہا ہے۔

 سوال یہ ہے کہ میں ایسا کرنےسے کیوں منع کررہا تھا اور کررہا ہوں؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہی عمران خان اور شاہ محمود قریشی ہیں جنہوں نے گزشتہ تین سال میں سی پیک کا برا حشر کرکے چینیوں کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی اس وقت تک پاکستان کے محتاج تھے، جب تک وہاں پر ان کے فوجی موجود تھے۔وہ پہلے سے چین اور اس کی معیشت کے سائز کے تناظر میں ہندوستان کو اپنا چہیتا اور پاکستان کو مستقبل کا حریف ڈکلیئر کرچکے ہیں۔ 

اس لئے افغانستان کے بارے میں تو امریکی حکام روزانہ کی بنیاد پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وغیرہ سے رابطے میں رہے لیکن امریکی صدر ایک سال سے ہمارے وزیراعظم سے فون پر بات نہیں کر رہے۔ یہ اس بات کا واضح پیغام تھا کہ افغانستان کے علاوہ اب پاکستان سے امریکہ کو کوئی دلچسپی نہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی گزشتہ 20 سال سے پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگا کر اپنی شکست کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔ 

قطر مذاکرات کے آغاز کے بعد وقتی محتاجی کی وجہ سے انہوں نے زبانیں بند کرلی تھیں لیکن یہ ہر سمجھدار انسان پر واضح ہے کہ افواج نکالنے کے بعد جب امریکا اور اس کے اتحادی اپنی شکست کے زخم چاٹ لیں گے تو سارا نزلہ پاکستان پر گرانے کی کوشش کریں گے۔ امریکی کانگریس میں گزشتہ ہفتے ہونے والی بحث اورسیکرٹری خارجہ بلنکن کے بیان سے واضح تھا کہ اب وہ وقت آنے کو ہے۔ آج کالم لکھنے سے قبل میں نے بلومبرگ (Bloomberg) کا اداریہ پڑھا، جس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کہا گیا ہے کہ جو ناکامی ہوئی اس کا ذمہ دار پاکستان ہے اور یہ کہ اب پاکستان کو سبق سکھانا چاہئے۔

 اسی تناظر میں ہم جیسے طالب علم دہائیاں دے رہے تھے کہ جشن مناکر طالبان کے ترجمان نہ بنو تاکہ ماضی کے الزامات ذہنوں سے محو ہوجائیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان، افغانستان کو ایک الگ ریاست اور حکومت کے طور پر ڈیل کرتا۔ ان سے باہمی روابط رکھ کر ان کے مطالبات اور اپنے مطالبات ہی پر توجہ مرکوز رکھتا۔ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا پھر ان کو عالمی تقاضوں کے مطابق حکمرانی پر آمادہ کرنے کے لئے کوئی کردار ادا کرنا ضروری تھا یا ہے تو اس کے لئے خاموش سفارت کاری کے ذریعے کوشش کی جاتی لیکن المیہ یہ ہے کہ عمران خان، شاہ محمود قریشی اور معید یوسف میڈیا میں یا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو طعنے دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں یا پھر طالبان حکومت کی وکالت اور ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

 حالانکہ اب طالبان کا اپنا وزیراعظم بھی موجود ہے، اپنا وزیر خارجہ بھی اور اپنا وزیر داخلہ بھی۔ وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ حالت تو یہ ہے کہ ان کے ملا برادر سے امریکی صدر آدھے گھنٹے کی گفتگو کرتے ہیں لیکن عمران خان سے کوئی بات کرنا گوارا نہیں کیا۔ سی آئی اے اور ایم آئی 6 کے سربراہ آکر طالبان سے براہ راست بات کرتے ہیں۔ روس، ایران اور چین کے سفارتخانے کابل میں کام کررہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا وفد کل ہی کابل میں سراج الدین حقانی سے ملا ہے۔ 

ان کے ترجمان ہماری حکومت کے ترجمانوں سے ہزاروں گنا زیادہ سمجھدار ہیں اور ان کا وزیر خارجہ ہمارے وزیر خارجہ سے ہزار گنا زیادہ سنجیدہ و زیرک ہے پھر ہمارے وزیراعظم، ہمارے وزیر خارجہ اور ہمارے این ایس اے کو ان کی ترجمانی کی کیا ضرورت ہے ؟ ان صاحبان کو یہ بھی علم نہیں کہ ان کی اس روش کا طالبان بھی برا مناتے ہیں۔

 حیا یا سفارتی آداب کی وجہ سے وہ ان کو منع نہیں کررہے لیکن اس وقت طالبان کے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ دنیا اور اپنے عوام کے سامنے یہ ثابت کریں کہ وہ خودمختار ہیں اور یہ کہ وہ پاکستان کے پراکسی نہیں ہیں۔ اسی لئے انہوں نے قطر کے وزیر خارجہ کو تو دعوت دی لیکن عمران خان یا شاہ محمود قریشی کو نہیں بلارہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔