Time 24 ستمبر ، 2021
بلاگ

نیب کا مستقبل کیا ہوگا؟

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی ناقابل توسیع4سالہ مدت اگلے ماہ ختم ہوجائے گی جنہیں وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت(جس کے وہ آئینی طور پر پابند ہیں) سے 8 اکتوبر 2017ءکو مقرر کیا تھا، تاہم وزیر اعظم عمران خان انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کے نئے سربراہ کے تقرر پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت کے خواہش مند نہیں محض اس لئے کہ شہباز شریف نیب کے ہاتھوں کرپشن ریفرنسز میں ملزم ہیں۔

 وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا موقف سامنے آچکا ہے کہ شہبازشریف چونکہ متعدد کرپشن ریفرنسز میں ملزم ہیں اس لئے حکومت نے نیب چیئرمین کے تقرر کے لئے قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہناتھا کہ اس معاملے پر وزیر اعظم کس طرح نیب کے ملزم سے مشاورت کرسکتے ہیں،اس لئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لئے حکومت دیگر قانونی اختیارات پر غور کر رہی ہے۔ ان میں ایک قانونی طریقہ جسے جمہوریت میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، وہ آرڈیننس کا اجراہے۔ 

ماضی میں تو ایوانِ صدر کو آرڈیننس فیکٹری بھی کہا جاتا تھا اب بھی اگر پارلیمان کے اجلاس چل رہے ہوں تو اچانک بریک لگاکر ایک آدھ آرڈیننس جاری کرکے گلشن کا کاروبار چلالیا جاتا ہے۔

جب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا بطور چیئرمین نیب تقرر ہوا تو اس کے خلاف بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔ چیئرمین نیب کے ساتھ تو معاملہ یہ رہا ہے کہ اپنے بھی اور بیگانے بھی سب ہی ان سے ناخوش رہے ہیں، اپنے ان کے اعلیٰ عدلیہ والے اور بیگانے جنہیں لوگ اپوزیشن کہتے ہیں،سب ناقدرہے ۔ 

آسمان سیاست نے یہ بھی دیکھا کہ حکومت بھی اپوزیشن کی صفوں میں گویا شامل ہوکر گولہ باری میں ہمرکاب رہی ہے۔ صدر شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات، منی لانڈرنگ، آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی اور رمضان شوگر ملز جیسے نیب کیسز کا سامنا ہے۔وہ ان ریفرنسز میں ضمانت پرہیں جبکہ ان مقدمات میں ایک سال کی جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔

شہباز شریف اور پارٹی کے دیگر رہنمانیب کی کارروائی کو نیب نیازی گٹھ جوڑاور سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی بھی نیب کووزیر اعظم کے حکم پر کام کرنے کا دوش دیتی ہے۔ ماضی قریب میں تو نیب کے ناخن تراشنے کی بھی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔اب صورت یہ بنی ہے کہ جاوید اقبال کو مدت ِ ملازمت میں توسیع دینے یا دوبارہ تعینات کرنے سے متعلق حکومتی غور وفکر کا حکو متی ترجمان انکار اور نہ ہی اقرار کر رہے ہیں۔

 نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کے تقرر کے لئے وزیر اعظم کو قائدِ حزبِ اختلاف سے مشاورت کرنی پڑتی ہے۔ حکومت اگرچیئرمین نیب کے تقرر کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت نہیں کرتی تو یہ لازمی بات ہے کہ یہ ایک غیر قانونی عمل ہوگا جس پرردِعمل اپوزیشن دے گی لیکن وہ بھی سود وزیاں دیکھ کر، حکومتی مؤقف کے مطابق شہبازشریف نیب کے ملزم ہیں، ایک ملزم سے مشاورت کیسی ؟ لیکن آئین، قانون، قواعد اصول، ضابطے بھی تو اسی مقصد کیلئے بنے ہیں اگر ایسی صورتحال درپیش آجائے تو کیا کیا جائے، اس بارے ترامیم کرنی ہوں گی، لیکن قانون و آئین کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیب کا ملزم ہونا اہم مسئلہ نہیں، تاآنکہ اپوزیشن لیڈر مجرم ثابت ہوجائیں، وزیر اعظم ان سے قانون کے مطابق معاملات پر مشاورت کر سکتے ہیں۔ 

نہ صرف نیب آرڈیننس اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دیا تھا۔اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنا کوئی انتخاب نہیں بلکہ یہ قانونی پابندی ہے۔ بات پھر وہی اگر مگر کی کہ اگر حکومت نے چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع یا دوبارہ تقرری سے متعلق آرڈیننس لانے یا ایسا کوئی قانون بنانے کا فیصلہ کیا تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔

ذرا کارکردگی تو جانچئے کہ جسٹس( ر) جاوید اقبال نے بطور چیئرمین نیب منصب سنبھالنے کے بعد نیب میں متعدد اصلاحات متعارف کروائیں۔ نیب کی مجموعی کارکردگی میں اضافہ ہوا۔ کارکردگی یہ رہی کہ اکتوبر 2017 ء سے اب تک ساڑھے 3 سالہ دور میں بدعنوان عناصر سے 533ارب واپس کرواچکا ہے، جبکہ نیب اپنے قیام کے 17سال بعد تک صرف 287 ارب روپے ریکور کروا پایا تھا۔نیب اس وقت نو سو ستائیس انکوائریوں میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ تیرہ سو ارب مالیت پر مشتمل بارہ سو تہتر مقدمات کے ریفرنسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

جسٹس (ر)جاوید اقبال کے دور میں نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا چیئرمین بھی مقرر ہوا۔ سارک ممالک کی جانب سے نیب کو رول ماڈل کے طور پر تصور کیا جاتا ہے جو قابل رشک ہے۔چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کی جانب سے بزنس کمیونٹی کے جائزمفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکسز سے متعلقہ تمام مقدمات کو ایف بی آر اور کسٹم ڈیپارٹمنٹ کو ریفر کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔

نیب کے تمام ریجنز میں ڈائریکٹر لیول کے آفیسر کی نگرانی بزنس ڈیسک کے قیام کے احکامات بھی صادر کیے گئے۔ان کے دور میں جدید اینٹی کرپشن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غرضیکہ نیب کے موجودہ چیئرمین کی کارکردگی سارے بحرانوں میں اچھے تیراک کی سی رہی ہے، باقی مستقبل کیا ہوگا، آنے والے دن ہی بتائیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔