بلاگ
Time 26 ستمبر ، 2021

معید یوسف بروقت خبردار کررہے ہیں

تاریخ میں کبھی یہ ضروری نہیں رہا کہ ہر ملک کو ہر دور میں قائداعظم، قائدِ ملت، جان ایف کینیڈی، جمال ناصر، سوئیکارنو، مہاتیر، نیلسن منڈیلا جیسے حکمران میسر آئے ہوں لیکن یہ لوگ ایسا سسٹم بنا دیتے ہیں جس سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ دنیا کے لوگ بالخصوص پاکستان کے عوام ہمیشہ کسی نجات دہندہ کی آرزو میں رہتے ہیں۔

 مثالیں ایسی ایسی بر گزیدہ ہستیوں کی دی جاتی ہیں ہم جن کی دس ہزارویں صفات بھی نہیں رکھتے۔ جب ہم حکمرانی کے لئے حضرت عمر فاروقؓ کی مثال دیتے ہیں تو کیا اپنی صفات پر بھی نظر ڈالتے ہیں کہ فاروقی دَور کے کسی ایک فرد کی خوبیاں بھی ہم میں ہیں۔

میرا اپنا بھی یہی حال ہے۔ اپنے اندر تو میں کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتا مگر عمران خان کو مثالی حاکم دیکھنا چاہتا ہوں۔ شہباز شریف کو مثالی اپوزیشن لیڈر۔ ان میں کوئی کمی کوئی برائی نہیں ہونی چاہئے۔ میرے اندر چاہے سارے عیب ہوں ۔ پھر کسی بھی سیٹ اپ سے ہم مایوس ہوتے ہیں تو مکمل طور پر۔ اس میں اگر کچھ اچھا سوچنے والے ہوں تو ان کی قدر بھی نہیں کرتے۔ اس مرتبہ انگلش اسپیکنگ یونین میں ہمیں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر 40سالہ معید یوسف کو سننے کا موقع ملا۔ بہت ہی پُر اعتماد۔ حقیقت پسندانہ۔ اعداد و شمار اور حقائق پر اپنے دلائل کی بنیاد رکھتے ہوئے۔

 میں سوچ رہا ہوں کہ معید یوسف اور اس خطّے کے بحرانی حالات ہم عمر ہیں۔ وہ 40سال کے بتائے جارہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں بھی جاری افراتفری 40سال کی ہے۔ انہوں نے بچپن سے ہی اپنے ارد گرد بہتا خون، گرتی لاشیں، غربت اور بد عہدی اور نا اہلی دیکھی ہوگی۔ تب ہی انہوں نے سکیورٹی کو اپنے لئے موضوع خاص چُنا۔ اس پر عبور حاصل کیا۔ گزشتہ دنوں مجھے ان 40سال پر ایک تحریر ماہنامہ ’ہلال‘ کے لئے قلمبند کرنا تھی۔ نیٹ پر مجھے اور مضامین کے ساتھ ساتھ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کیلئے مئی 2013 میں لکھی رپورٹ ملی۔ جس کا عنوان تھا۔

Decoding Pakistan's Strategic Shift in Afghanistan ۔ افغانستان میں پاکستان کی حکمت عملی میں تبدیلی کی تفہیم۔ 25صفحات پر مبنی یہ رپورٹ معید یوسف صاحب ہی کی تھی۔ اس وقت یہ 32 سال کے ہوں گے مگر ان بہت ہی حساس اور پیچیدہ معاملات پر ایک عبور دکھائی دیتا ہے۔

ایک عجیب سوچ میرے ذہن میں کلبلارہی ہے کہ ہر دَور میں اور خاص طور پر عمرانی دَور میں یہ غیر منتخب مشیر، منتخب وزراء سے زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار کیوں ہوتے ہیں؟ ہمارے انتخابیے، Electables ، ایم این اے، ایم پی اے، قومی اور بین الاقوامی امور پر سنجیدہ نظریں کیوں نہیں رکھتے۔

 تین سو کے قریب ارکان اسمبلی اور سینیٹ ہونے کے باوجود ہر وزیر اعظم کو حساس معاملات بالخصوص سکیورٹی ، تجارت اور خزانہ کے لئے پارلیمنٹ سے باہر تلاش کیوں کرنا پڑتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنی صفوں میں پڑھے لکھے تجربہ کار لوگوں کو کیوں شامل نہیں کرتیں؟ جاگیردار، سرمایہ دار خاندان اپنے چشم و چراغ ان پڑھ کیوں رکھتے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ انتہائی حساس معاملات پر منتخب وزراء محاذ آرائی کرتے ہیں اور غیر منتخب مشیروں کے خلاف ایک لابی بھی تیار کرتے ہیں۔

میں کلیم فاروقی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے مدعو کیا اور اصرار بھی کیا۔ معید یوسف نے سب سے اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ اب تک ہم علاقائی سیاست Geo Politics کو اولین ترجیح دیتے رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے ۔ علاقائی معیشت Geo Economy ۔ پاکستان کے محل وقوع نے ہمیں عالمی خوشحالی کا مرکز بننے کی بجائے عالمی جنگوں میں الجھایا ہے۔

 اب وقت آگیا ہے کہ علاقائی معیشت کو سر فہرست رکھا جائے۔ اس خطّے کے ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی یہ اولین ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے سب سے بڑے ہمسائے بھارت میں ایسی حکومت ہے جس نے نہ صرف اپنے ملک کے اندر بلکہ آس پاس کے ہمسایہ ممالک میں بھی عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے۔ اس لئے مشرق کی طرف دیکھنے کی بجائے ہمیں وسطی ایشیائی راستوں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں وزیر اعظم کے زیادہ دورے بھی انہی ممالک کے ہیں۔

مجھے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کی یہ بات ہی بھاگئی ہے کہ علاقائی سیاست کی بجائے علاقائی معیشت پر توجہ مرکوز کریں۔ ضرورت تو اِس کی ہمیشہ سے تھی لیکن حالات نے سارا زور علاقائی فوجی طاقت پر رکھا ۔ ہمارے اتحادی امریکہ نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی۔ افغانستان میں غربت اور پسماندگی کی وجہ سے وہاں علاقائی جنگی سردار غالب رہے اور ایک مستحکم معاشرہ جنم نہ لے سکا۔

معید یوسف نے بجا طور پر کہا کہ وسطی ایشیائی ممالک افغانستان، پاکستان اور ایران کی اقتصادی خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان میں عدم استحکام ہے۔ اب یہ تمام عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان میں استحکام کو اولین ترجیح دیں۔ وہ خبردار کررہے ہیں کہ ماضی کی طرح افغانستان کو چھوڑ کر چلے جانے کی روایت بڑی غلطی ہوگی۔

 امریکہ یورپ اور ساری دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ طالبان سے رابطے میں رہیں۔ بد قسمتی ہے کہ تاثر حقیقت پر غالب آجاتا ہے۔ اس تاثر میں ہم معیشت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انسانی بہبود ہمارا اولین فرض ہے۔ اس کے لئے جتنی سرمایہ کاری درکارہو، کر نی چاہئے۔ پاکستان میں بھی وسائل بہت زیادہ ہیں۔وسائل اس خطّے میں بھی ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کے لئے اب گوادر کی جدید ترین بندرگاہ موجود ہے۔ چین کا راہداری کا قیمتی منصوبہ بھی ہے۔ افغانستان میں استحکام صرف اس خطّے کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے ہی نہیں عالمی امن اور ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے نہ کرنے سے زیادہ ضروری ہے کہ ان سے رابطے میں رہیں۔ شکریہ معید یوسف صاحب۔ اس معروضی، حقیقت پسندانہ انداز فکر کا۔ جذبات سے صرفِ نظر، نعرے بازی سے گریز۔ قومی سلامتی کے مشیر کی ایسی ہی سوچ ہونی چاہئے۔

آخر میں ایک بہت بڑے ادبی،علمی، صدمے پر چند الفاظ ۔ پاکستان گزشتہ دنوں ایک درد مند، روشن خیال مصنّف ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی سے محروم ہوگیا۔ انگریزی اُردو دونوں میں بہت خوبصورت طنز و مزاح لکھتے تھے۔ اہل حرف کے قدردان جس محفل میں ہوتے اسے کشتِ زعفران بنادیتے۔ 

ہر سال جنوری میں پائے کی دعوت پر احباب کو جمع کرتے۔ مشاعرے مذاکرے کی مجلس برپا کرتے۔ مجلس صدارت مستقل تھی۔ یٰسین ملک، عبدالحسیب خان، جنرل معین الدین حیدر، میاں زاہد حسین۔ مشاعرے کے لئے ناچیز۔ کچھ سال سے ایک صاحبِ تحریر کو ایوارڈ اور نقد انعام دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ 

ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔بے شُمار مستحقوں کی حصول علم میں عملی امداد کرتے رہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔