02 اکتوبر ، 2021
اس حد تک افغانستان میں امریکا کو ضرور شکست ہوئی کہ جیسا وہ چاہتا تھا، ویسا نہیں ہوسکا۔ اس نے افغان سوسائٹی کو اپنی ترجیحات کے مطابق موڑنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن نہ موڑسکا۔ اس نے پاکستان کو افغانستان میں حسب منشا کردارادا کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ترغیب بھی دی اور دباؤ بھی ڈالا لیکن پاکستان آمادہ نہیں ہوا۔
افغانستان میں انڈیا کو جگہ دینے اوراسے ایران، پاکستان، چین اور روس کے مفادات کے خلاف استعمال کرنے کی غلطی کی، جس کی وجہ سے اس طرح نہیں ہوسکا جس طرح امریکہ چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے بالواسطہ اور غیرمحسوس انداز میں افغانستان سے نکلنے اور اسے طالبان کے سپرد کرنے کی راہ اپنائی۔
چوبیس سال امریکی حکام اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا تھا، اس کے بعد اگر وہ اعلانیہ طریقے سے اپنا اسلحہ اور افغانستان کی سرزمین طالبان کے سپرد کرتے تو وہ اپنے عوام کا سامنا نہ کرسکتے۔ امریکیوں نے اس مقصد کی خاطر اشرف غنی حکومت اور ان کی فوج کے ساتھ دھوکہ کیا۔
دراصل اشرف غنی حکومت اور اس کی فوج کا مورال اس وقت گرنے لگا جب اسے بائی پاس کرکے امریکیوں نے قطر میں طالبان سے مذاکرات شروع کئے اور پھر غنی حکومت اور اس کی فوج کی رِٹ تو اس روز عملاً ختم ہوگئی جس روز قطر معاہدے پر دستخط ہوئے۔ قطر معاہدے میں امریکیوں نے طالبان کو پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی سمیت بہت کچھ دیا لیکن جواب میں اشرف غنی حکومت کے لئے جنگ بندی کی شرط تک نہ منوا سکے۔ قطر ڈیل کے بعد سے لے کر اگست کے مہینے تک امریکا اور طالبان کے اسکرپٹ پر پوری طرح عمل ہوتا رہا۔
پورے سال میں طالبان نے امریکیوں پر اور امریکیوں نے طالبان پر ایک گولی نہیں چلائی۔ یہ طے ہوا تھا کہ جولائی تک طالبان صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ نہیں کریں گے چنانچہ سیکڑوں اضلاع پر قبضے کے باوجود طالبان نے جولائی تک کسی صوبائی ہیڈکوارٹر پر قبضہ نہیں کیا۔ آخری انڈراسٹینڈنگ یہ تھی کہ طالبان چھ ماہ تک کابل میں داخل نہیں ہوں گے اور اسی لئے کابل کے گرد پہنچ کر بھی طالبان نے اعلان کیا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے۔
امریکیوں کا خیال تھا کہ ان چھ ماہ کے دوران وہ ایک تو اپنے لوگوں کے مناسب طریقے سے انخلا اور دوسرا اپنے لئے فیس سیونگ کا کوئی بندوبست کرلیں گے۔ لیکن اس دوران اشرف غنی اور طالبان دونوں نے سرپرائزدے دیا۔چنانچہ امریکیوں کے اسکرپٹ کا آخری حصہ درہم برہم ہوگیا۔ اس کی وجہ سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بے تحاشہ ہزیمت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی فوج افغانستان سے نکلی ہے لیکن امریکا افغانستان سے لاتعلق ہوا ہے اور نہ اس خطے سے نکلا ہے۔
امریکی سینیٹ میں ری پبلکن سینیٹرز کے پیش کردہ بل کو پورا پڑھ لیا جائے تو اس میں اس ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ طالبان قیادت بدستور امریکہ اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں ہے اور اسے صرف امریکا اور اس کے اتحادی نکال سکتے ہیں۔ اقتصادی پابندیاں لگ گئیں تو طالبان کے لئے افغانستان کو چلانا بہت مشکل ہوجائے گا اور یہ ریموٹ امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ امریکی بدستور افغانستان کی فضائوں میں موجود رہیں گے اور ان دنوں بھی ہر وقت ڈرون کابل کے اوپر پرواز کرتے نظرآتے ہیں۔ جب تک اس کے فوجی افغانستان میں موجود تھے، امریکا طالبان کا بھی محتاج تھا اور پاکستان کا بھی۔
فوجی نکالنے کے بعد اب طالبان بھی امریکہ کے محتاج ہوگئے ہیں اور پاکستان بھی۔ امریکا نے افغانستان میں کارروائی کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کو چھ ماہ تک توسیع دے دی۔ یوں اب اگر وہ فضا سے بی باون طیاروں یا ڈرون کے ذریعے کارروائی کرے تو طالبان جواب میں کہاں جوابی حملہ کریں گے؟ امریکی حملہ کریں یا نہ کریں لیکن بلیک لسٹ اور فضائی طاقت کی تلوار لٹکائے رکھیں گے۔ امریکی سینیٹرز کے پیش کردہ بل میں صرف افغانستان نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے پلان تجویز کیا گیا ہے۔
مثلاً اس میں طالبان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے اور ان کی حکومت کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے کی تجویز ہے۔ اب امریکی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک کے سوا طالبان نے قطر معاہدے کی باقی شرائط پوری نہیں کیںجس کا مطلب یہ ہے کہ اب انہوں نے خود کو قطر معاہدے کی قید سے آزاد کرلیاہے۔ اب اگر طالبان ان کے حسبِ منشا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوں گے تو ٹھیک ،نہیں تو امریکی ان کے خلاف ایک اور طریقے سے طاقت استعمال کریں گے۔
اس بل میں پاکستان کے طالبان سے متعلق کردار کا 2001سے لے کر 2021 تک جائزہ لے کر اس پر بھی پابندیوں کی تجو یز دی گئی ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ بل میں اپنی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان، طالبان اور چین کے مقابلے میں ہندوستان کو دفاع، معیشت اور سفارتکاری کے شعبوں میں مضبوط اور توانا کرے۔ اسی طرح ترکی اوروسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے ایغور مسلمانوں کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی تجویز کی گئی ہے۔
یہ سوال کہ امریکہ بدستور سپرپاور رہے گا تو صرف اتنا عرض کروں گا کہ سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے سامنے امریکی سیکرٹری دفاع اور جرنیلوں کی جو درگت بناکر پوری دنیا کو دکھائی گئی، اس کی وجہ سے میرا یہ یقین پختہ ہوگیا کہ امریکہ کے سپرپاور ہونے کی حیثیت طویل عرصہ برقرار رہے گی۔چین اگرچہ بہت بڑی طاقت بن گیا ہے لیکن فی الحال وہ افغانستان کے حوالے سے پوری طرح امریکہ کا متبادل بنا ہے اور نہ وہ امریکا کی طرح جارحانہ سفارتکاری کا قائل ہے۔
چین افغانستان میں اپنے کردار کے حوالے سے بہت محتاط ہے اور چونکہ اسے یہ یقین ہے کہ امریکا اس کے حوالے سے جارحانہ عزائم رکھتا ہے اس لئے وہ افغانستان یا پاکستان کو کبھی تنازع کی بنیاد نہیں بنائے گا۔ چین پاکستان کا خیرخواہ اور گہرا دوست ہے لیکن امریکا پر پاکستان کا انحصار بدستور باقی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے سی پیک کے ساتھ جو برا سلوک کیا، اس کی وجہ سے چین موجودہ سیٹ اپ پر تکیہ کرسکتا ہے اورنہ اس کی خاطر کوئی بڑا رسک لے سکتا ہے۔
چین سمجھتا ہے کہ گزشتہ تین سال میں سی پیک اور افغانستان کے حوالے سے عمران خان کی حکومت نے امریکہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے۔ یہی حکومت ہے جو آئی ایم ایف کے پاس جاکر اپنی گردن خود ہی امریکا کے پھندے میں دے چکی ہے۔ چنانچہ اب جب امریکا پاکستان کے بازو مروڑے گا تو چین کی طرف سے بھی وہ سہارا نہیں مل سکتا جس کی ہم توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
اس تناظرمیں دیکھیں تو افغانستان پر اچھا وقت آیا ہے یا برا لیکن پاکستان کے لئے یہ ایک مشکل وقت ضرور ہے۔ تاہم تماشہ یہ ہے کہ یہاں امریکی شکست کو اپنی فتح قرار دے کر جشن منائے جارہے ہیں اور مستقبل کے چیلنجز کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔