10 اکتوبر ، 2021
ماضی کی یادوں پر گزر بسر کرنے والے صرف ’’نان نیٹو اتحادی‘‘ ہونے کی یادوں کے بخیے اُدھیڑا کریں۔ ماضی کا بشیر سار بان اب افغانستان میں امریکی جنگ کے چھوڑے کچرے کو سنبھالا کرے یا پھر افغان طالبان کی میانہ روی کے لئے دعا کیا کرے۔ امریکی صدر بائیڈن کے فون کا تو انتظار ہی رہا، آئے نہ آئے، کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔
جس دورے کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے امریکی ہم منصب سے استدعا کی تھی وہ ہوگیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے پاکستان آنے سے قبل بھارت میں اپنے دورے کے اختتام پر ممبئی میں پہلے ہی صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ان کا پاکستان کے دورے کا مقصد بہت ہی محدود اور مخصوص ہے(Specific and Narrow)
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنے آپ کو پاکستان کے ساتھ وسیع تر تعلق بناتے نہیں دیکھ رہے اور ہمیں کوئی دلچسپی نہیں کہ ہم پاکستان اور بھارت کے باہم منسلک (Hyphenated) تعلقات کے دنوں میں واپس جائیں۔ اس مقام پر ہم اب نہیں ہیں۔
یہ سمت وہ نہیں جہاں ہم جارہے ہیں‘‘۔ پھر اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے موصوفہ نے واضح کردیا کہ ان کے اس مخصوص دورے کا مقصد خاص طور پر یہ ہے کہ ہم افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں اور یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان سے مشاورت کی جائے کہ آگے کیسے بڑھا جائے اور ہم طالبان سے کیا توقعات رکھتے ہیں، ان کے ساتھ کس نوعیت کا رابطہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان، افغانستان یا کسی بھی ملک میں اور دنیا میں دہشت گردی نہ ہو۔
امریکا کا پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف طویل تعلق ہے اور یہ کہ ہم دہشت گردی کے خلاف بات چیت جاری رکھیں گے۔ ان کی بات چیت کا لب لباب یہ تھا کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ افغانستان مستحکم ہو جو دہشت گردوں کو کوئی محفوظ گاہ فراہم نہ کرے۔ افغان طالبان کو ان کے سرعام وعدے یاد دلاتے ہوئے انہوں نے باور کروایا کہ وہ جامع افغان حکومت، آزادی، نقل و حرکت، انسانی حقوق بشمول خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی اور افغانستان کو پھر سے دہشت گردوں کی آما جگاہ نہ بننے دینے کے وعدے پورا کرے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے انتباہ کیا کہ وہ طالبان کو ان کے الفاظ پہ نہیں پرکھیں گی بلکہ ان کے اعمال کو دیکھیں گی، لیکن ان کا عمل ان کے وعدوں سے بہت پیچھے ہے۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق انہوں نے پاکستان کو تنبیہ کی کہ وہ عالمی برادری سے کیے گئے تمام وعدوں کی تکمیل کیے بغیر طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے۔
یہ تو امریکی نائب وزیر خارجہ کا صاف صاف بیان تھا جس میں انہوں نے امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو افغانستان اور دہشت گردی کے دونکاتی یا یوں کہیے یک نکاتی ایجنڈے تک محدود کردیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ پر ان کا یہ بیان بجلی بن کر گرا۔ حیرانی تو یہ ہے کہ ہمارے مشیران خارجہ و سلامتی امور کی فوج ظفر موج جانے خوش فہمیوں کے کن خوابوں میں مگن تھی۔
انہیں لگتا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا سے پید اہونے والی غیر یقینی صورتحال اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر امریکہ پھر سے پاکستان کے ساتھ ’’نان نیٹو اتحادی‘‘ہونے کے سابقہ تعلق کو نہ صرف کسی نہ کسی صورت برقرار رکھے گا بلکہ ان تعلقات کو وسیع البنیاد بنانے پہ مجبور ہوگا۔
اس ضمن میں بھارت کے ساتھ امریکا کے نئے بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک تعلقات سے صرفِ نظر کرتے اور پاکستان کے چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرے تعلقات کو پاک امریکا تعلقات میں آڑے نہ آنے دینے کے لئے جانے کیسی کیسی یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں تاکہ ایک طویل المدت اور ہمہ طرفہ تعلقات کی پھر سے تجدید کی جاسکے لیکن جواب ملا تو ٹکا سا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے۔ افغانستان میں طالبان کی فتح سے حاصل نام نہاد تزویراتی گہرائی خارجہ و سلامتی کے ماہرین کے لئے گہری کھائی ثابت ہوئی ہے۔
خارجہ تعلقات ضرورت کے رشتے ہیں۔ امریکا کا مقصد پورا ہوا، بسترا لپیٹا اور چلا گیا جیسے وہ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی پر افغان مجاہدین کے خون خرابے کو ہماری گود میں ڈال کر چلتا بنا تھا۔ امریکی زخم خوردہ اور نالاں ہوگئے ہیں۔
وہ عالمی سطح پر طالبان کا شکنجہ کسنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے اور پاکستان کو اس عالمی شکنجے کو مضبوط کرنے کے لئے ہر طرح کا دبائو ڈالیں گے، نہ کہ افغانستان سے اُمڈنے والے کسی نئے خطرے کے باعث پاکستان کو گلے لگالیں گے۔ پاکستان تو دہشت گردی کے خطرے کو امریکا پر دبائو ڈالنے کے لئے استعمال نہیں کرسکتا، البتہ امریکا کئی طریقوں سے پاکستان کا ناطقہ بند کرسکتا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی بھول جائے کہ پاک امریکا تعلقات کا ’’امریکا تیرا شکریہ‘‘ والا دور واپس آسکتا ہے۔ نئی عالمی صف بندیاں ہوچکی ہیں، چین کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سرد جنگ کا باقاعدہ اعلان ہوگیا ہے اور ایشیا، بحرالکاہل کے علاقے میں امریکا نے بھارت کو چین کے خلاف بنیادی اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر منتخب کرلیا ہے، چاہے امریکا نواز پاکستانی حلقے کیسی ہی نفیریاں بجایا کریں۔
البتہ، یہ بھی غنیمت ہے کہ افغانستان کے ناطے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ہمیں جو چھوٹا موٹا کردار مل سکتا ہے تو اس کے باعث شاید ہم کسی بڑی مشکل سے بچ پائیں۔ امریکا سے اچھے تعلقات کے دنوں میں بھی امریکہ نے ہمیں بار بار دغا دیا تھا اور قریبی تعلقات کے ادوار کے خاتمے پر پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ایسے میں چین، روس، ایران، وسطی ایشیا، ترکی اور عربوں سے تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور امریکا سے کسی نظر کرم کے طفیل انہیں بحران کا شکار کردینے کی للچائی نظروں سے بچنا چاہئے۔
اب امریکا بھی جیو اکنامکس کی جانب گامزن ہونے کے لئے پر تول رہا ہے اور اس کے لئے عالمی معاشی نظام میں چین سے تعلقات کو منقطع کرنا بھی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کو بھی اپنے فرسودہ جیواسٹرٹیجک عزائم سے خلاصی چاہئے۔ اور اگر معاشی ترقی اور بقا ہی اول ترین ہے تو پھر خطے میں ماحول کو گرم رکھنے کی بجائے ہر ایک سے اچھے تعلقات کے لئے تمام بند دروازوں کو کھولنے کی سعی کی جائے۔ گڈ بائی امریکا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔