بلاگ
Time 21 نومبر ، 2021

حکومت اور اپوزیشن۔ ایک دوسرے کے نقّال

آج اتوار ہے۔ آپ کو یاد ہوگا آج بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں کے لیے وقت نکالنا ہے۔ نواسے نواسیاں ساتھ نہیں رہتے تو انہیں بلالیں یا پوتے پوتیوں کو ساتھ لے کر ان کی طرف چلے جائیں۔ ہفتے میں ایک دن تو ایسا ہونا چاہئے جب آپ ساتھ مل بیٹھیں۔ کھل کر اپنی باتیں ہوں۔

اس مہنگائی میں گزارا کیسے کررہے ہیں۔ کتابیں کون سی پڑھ رہے ہیں جو عزیز و اقارب ترکِ وطن کر گئے ہیں وہ اپنے نئے آشیانوں میں کیسے رہ رہے ہیں، اسلامو فوبیا کا سامنا تو نہیں کررہے ؟ کبھی فرصت ملے تو مجھے بھی شریکِ محفل کریں۔

میں فیس بک پر ہر جمعرات اور اتوار کو Go Liveکا فائدہ اٹھاتا ہوں۔ ’’جنگ‘‘ میں اپنا مطبوعہ کالم پڑھ کر سناتا ہوں۔ احباب کے تبصرے پڑھتا ہوں۔ ایک ہفتے سے فیس بک کو نہ جانے کیا سوجھی ہے، میں احباب سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔

سامنے ایک فرمان آجاتا ہے کہ آپ لائیو نہیں ہو سکتے۔ فیس بک نہیں جانتی اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہم تو اظہار پر پابندی کے عادی ہیں۔ ان سات دہائیوں میں کتنے ادوار آئے جب حکم صادر ہوتے رہے کہ آپ اپنے دل کی بات نہیں کرسکتے۔ چراغ حسن حسرت کہہ گئے ہیں۔

جنہیں ہم کہہ نہیں سکتے، جنہیں تم سن نہیں سکتے

وہی باتیں ہیں کہنے کی، وہی باتیں ہیں سننے کی

یہ مغرب والے ایک طرف تو ہمیں اپنی حکومتوں، اپنی فوج کے خلاف لکھنے بولنے پر اکساتے ہیں۔ دل اور ذہن میں جو کچھ ہے اس کے اظہار کی تحریک دیتے ہیں۔ پھر ایسی پابندیاں بھی لگادیتے ہیں۔

ان دنوں پورے ملک میں حکومت کی ’’بل ڈوزنگ‘‘ کا چرچا ہے کہ مشترکہ اجلاس بلاکر چند لمحوں میں 33قوانین منظور کروالیے۔ ذرا سوچئے کہ جو قوانین کسی بحث مباحثے کے بغیر منظور ہورہے ہیں؟

ان میں کتنی جان ہوگی؟ عدالتیں بعد میں کہتی بھی ہیں کہ قوانین کو سمجھنے اور پس منظر جاننے کے لیے پارلیمنٹ میں ان سے متعلقہ بحثوں سے مدد ملتی ہے۔ پارلیمنٹ میں ووٹنگ ان لاکھوں کروڑوں ووٹوں کی ہی عزت ہے جن کے ذریعے ارکانِ اسمبلی اس عظیم مسند تک پہنچے ہیں۔

ان 33 میں سے ایک قانون نے مجھے نہال کردیا ہے۔ اس کا متن تو نہیں مل رہا۔ کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں جن کے لیے میں کئی دہائیوں سے لکھتا آرہا ہوں۔ اب سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے 10ہزار کارکن ہونا لازمی ہوں گے اور ان میں خواتین کا 20 فی صد ہونا بھی ضروری ہوگا۔

ملک کی سیاسی جماعتوں پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر سال مختلف شہروں میں پارٹی کے کنونشن منعقد کرکے ملک کو درپیش 10 مسائل کی نشاندہی کرکے ان کے حل کے لیے کنونشن میں سفارشات تیار کریں گی اور ان سفارشات کو الیکشن کمیشن ارسال کرنا لازمی ہوگا۔

میری عاجزانہ تجویز یہ رہی ہے کہ ہر قومی سیاسی پارٹی کو ہر سال پہلے اپنے ضلعی کنونشن بلاکر اپنے ضلعی عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں۔ پھر منتخب ضلعی عہدیداران صوبائی کنونشن منعقد کرکے نئے صوبائی عہدیدار منتخب کریں۔

یہ نئے صوبائی عہدیدار قومی کنونشن منعقد کرکے قومی عہدیدار منتخب کریں۔ اس طرح ہر پارٹی کا ڈھانچہ جمہوری ہوجائے گا۔ ان کنونشنوں میں سارے مسائل پر بات ہوسکتی ہے۔ سفارشات مرتب کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح کارکنوں کو اپنی اہمیت اور طاقت کا احساس بھی ہوگا۔

یہ پابندی بھی ہونی چاہئے کہ جس پارٹی کی ملک کے ہر صوبے میں شاخیں نہیں ہوں گی منتخب عہدیدار نہیں ہوں گے اسے نہ تو الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت ہو نہ کسی سیاسی سرگرمی کی۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت کی طرح اپوزیشن کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔

اپوزیشن کے باقاعدہ سیکرٹریٹ ہوتے ہیں۔ ایک متبادل حکومت کے طور پر اس کی اپنی ایک کابینہ ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں کے لیے مختلف سربراہ۔ وہ روزانہ اپنے شعبوں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ ہر وقت حکومت سنبھالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

موجودہ اپوزیشن کو تو اتنے مواقع ملے کہ وہ اس دو تین ارکان کی اکثریت والی حکومت کو بہت زیادہ بحرانی حالت میں مبتلا کرسکتی تھی۔ان کے پاس عددی طاقت بھی ہے۔ سینیٹ میں تو اکثریت بھی ہے۔ یہ اگر ملکی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہوں۔

ان کے متبادل سیکرٹریٹ ہوں۔ معیشت، زراعت اور دوسرے شعبوں پر عبور ہو تو یہ ہر روز حکومت کو عوام کے کٹہرے میں کھڑے ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ یہ اپوزیشن صرف تنکوں کا سہارا ڈھونڈتی ہے۔ کبھی ایک سابق چیف جج کے حلفی بیان سے امید لگا بیٹھتی ہے۔

کبھی آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تقرری میں تاخیر پر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھادیتی ہے۔ اتنے تجربہ کار، سیاستدان ہیں، اپنے اپنے علاقوں میں مقبول جاگیردار صنعت کار۔ وکلاء ان کے ساتھ ہیں۔ ملک کے معاشی حالات انتہائی ابتر ہیں۔ حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ پی پی پی۔

جمعیت علمائے اسلام سب ہی حکومت میں رہ چکے ہیں۔ ان کی اپنی حکومتیں کیسے دریا پار کرتی رہی ہیں۔ کون سے ادارے حکومت بچانے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ کون سے ادارے حکومت گرانے کے لیے؟ انہیں یہ بھی خبر ہے کہ وہ چند انتخابیے Electable کونسے ہیں جو کسی کے نہیں، صرف سرکار کے ہیں؟

میں با خبر ہوں کہ آج کی اپوزیشن گزری کل کی سرکاریں۔ عوام کا درد نہیں رکھتیں۔ پھر بھی یہ مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ روایتی جلسے جلوس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ کسی حکومت کے خلاف تحریک اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر نتیجہ خیز نہیں رہی۔ اب یہ آپریشن فیئر پلے، جیکال نائٹس بہت ہوچکے۔ اپوزیشن موجودہ بحرانوں کے تناظر میں آئندہ کم از کم دس سال کے لیے لائحہ عمل طے کرے۔

بتائیے کہ آئی ایم ایف سے کیسے نکلیں گے۔ ملکی وسائل کا استعمال کیسے کریں گے۔ ضروری اشیا کی قیمتیں غریبوں کی آمدنی کے مطابق کیسے رکھیں گے۔ 60 فی صد آبادی یعنی نوجوانوں کو مصروف کیسے رکھیں گے۔ ان کی مذہبی پالیسی کیا ہوگی۔

تعلیمی حکمت کیا ہوگی۔ علاج معالجے کے لیے کیا انتظامات ہوں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کیا منصوبے ہیں؟ پھر دیکھئے کہ ملک میں کیسے استحکام آتا ہے۔ آپ کی مقبولیت کیسے بڑھتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کی نقّالی جتنی جلد چھوڑ دیں۔ ملک کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔