13 دسمبر ، 2021
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ صحافی کے کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم ذمے داری لیں یا انہیں ذمے دار ٹھہرائیں جو اُن کے تابع ہیں، ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اُٹھا لے، آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جاسکا، یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔
لاپتہ صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ ہمیں نہیں معلوم میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مِسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں، اٹارنی جنرل صاحب، آپ بتائیں عدالت کیا کرے؟
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا، مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ لاپتہ کردیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت کہہ سکتی ہے شہری جس دورمیں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزرائے اعظم کےخلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کریں، ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر وہاں لگا دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر ہی کیوں لگائی جائیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی، وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ کچھ وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن الله نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کو ڈھونڈے، نہ ڈھونڈ سکتی ہے، ریاست کی خواہش ہی نہیں، جبری گمشدگیوں کا کمیشن بھی آئین کے خلاف بنا ہے، صرف فیملیز اس کمیشن میں جاتی ہیں جنہیں تاریخ دے دی جاتی ہے۔
عدالت کی جانب سے ریمارکس دئے گئے کہ وزیر انسانی حقوق نے کہا قانون بنا رہے ہیں، قانون کی تو ضرورت ہی نہیں، ہزاروں فیملیز ہیں جنہیں ریاست سنبھال ہی نہیں رہی، ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی، آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جا سکا، یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ ایسا نہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا، یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا، ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ کتابیں لکھتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں لوگوں نے اپنی مرضی سے سرحد پار کی، سینکڑوں پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر بارڈر کراس کیا، افغانستان گئے، اب وقت آگیا ہے اسے روکا جائے، مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ لاپتہ کر دیا جائے، اٹارنی جنرل نے کہا صحافی کا کام ہے کہ وہ تنقید کرے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے تو دہشتگرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مار سکتے، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اٹھا لے، لوگ چار چار سال سے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کےپاس جارہے ہیں، جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا جو کام تھا وہ اس نے نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا المیہ یہ ہے ہمیں جغرافیائی حالات، قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ کل ایک ایس ایچ او کہے گا فلاں شخص اس کے خلاف بات کر رہا ہے تو اسے اٹھالو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کہہ سکتی ہے شہری جس دور میں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف آرٹیکل 6 کی کاروائی کریں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ آرٹیکل 6 کے جرم میں جسے سزا ہوئی ہم تو اس سزا پر عملدرآمد نہیں کر پائے، جس پر عدالت نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے اس معاملے پر کسی کا احتساب نہیں ہو رہا، ہر کوئی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر وہاں لگا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر کیوں لگائی جائیں؟ کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے کہ سڑکوں پر آئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے اگر ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہاں 1970 سے ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ بتائیں عدالت کیا کرے؟ اگر ریاست اپنا کردار ادا کرتی تو لاپتہ شخص کا بچہ یہاں نہیں آتا، عدالت توقع کر رہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس بارے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے ایک بچہ اٹھا کر لے گئے، اس نے بعد میں بیان دیا شمالی علاقوں کی سیر کو گیا تھا، ہمیں نہیں معلوم میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ چیف ایگزیکٹو ذمہ داری لیں یا انہیں ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔
انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ریاست میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دارہیں، میڈیا پر دباؤ ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی فیملیز کی مشکلات نہیں دکھا سکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کی معاونت کریں لاپتہ افراد کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟ لاپتہ افراد کیلئے کمیشن کی موجودگی ہی آرٹیکل 16 کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا ردعمل کیا ہوتا ہے، ردعمل واضح اور نظر آنا چاہیےکہ لوگوں کو لاپتہ کرنا ریاستی پالیسی نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت تو ایک فیصلہ ہی دے سکتی ہے، آپ معاونت کریں ہم آرڈر جاری کریں گے، عدالت اس کو سراہتی ہے کہ وزیراعظم نے مدثر نارو کی فیملی سے ملاقات کی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل اور وکلا کو عدالت کی معاونت کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ جس پر ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ میں کل ہی اس معاملے پر عدالت کی معاونت کیلئے تیارہوں جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کاش میں کہہ سکتا کہ کل ہی معاونت کر سکتا ہوں، مجھےعدالت کی معاونت کیلئےکچھ وقت درکارہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد صحافی مدثر ناور گمشدگی کیس کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کر دی۔