14 دسمبر ، 2021
اس وقت حکومت یا سیاست کو نہیں بلکہ پاکستانی ریاست کو خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت صرف سیاست کررہی ہے۔ ریاست کے معاملات سے مکمل لاتعلق دکھائی دیتی ہے، اسے اس کی سمجھ نہیں، یا پھر جہاں کردار ادا کرتی ہے، وہاں ریاست کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں مزید گھمبیر بنادیتی ہے۔ رہے حکومت مخالف سیاستدان تو وہ اپنی بقا کی جنگ میں مگن ہیں اور ریاست کے مسائل سے وہ بھی یکسر لاتعلق ہیں۔
اس وقت ریاست کو درپیش سب سے بڑا خطرہ تباہ ہوتی معیشت کا ہے۔ عمران خان اور اُن کے وزرا کچھ بھی کہیں، عملاً اب معیشت کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں رہا ہی نہیں۔انہوں نے خود اس کی مہار آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ ان کے پاس بہتری کا کوئی خاکہ ہے اور نہ اس حالت سے نکلنے کا کوئی منصوبہ۔ وہ معیشت کو صرف اس حد تک چلارہے ہیں کہ موجودہ تباہی کو اپنی نہیں بلکہ سابقہ حکومت کے کھاتے میں ڈال سکیں۔
اگر ایک طرف یہ تباہ ہوتی معیشت داخلی محاذ پر ملک کو انارکی کی طرف لے جارہی ہے تو دوسری طرف شاید دفاعی حوالوں سے بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔انڈیا جس تیزی کے ساتھ دفاعی بجٹ بڑھا رہا ہے، اس کی جی ڈی پی کی ترقی کی شرح تو اسے برداشت کرسکتی ہے لیکن ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو کےجمود بلکہ زوال کے باعث ہماری ریاست سابقہ شرح کے مطابق بھی دفاع کے لئے وسائل مختص کرنے کی قابل نہیں رہے گی۔
دوسری اہم مشکل یہ آگئی ہے کہ چین اور امریکہ کے حوالے سے بھی جراتمندانہ مگر دانشمندانہ فیصلے کا وقت آگیا ہے۔امریکہ پاکستان سے پہلے ہی نالاں تھا مگر صرف افغانستان میں اپنی افواج کی موجودگی کی وجہ سے اس کا محتاج تھا۔اب نہ صرف وہ محتاجی ختم ہوگئی بلکہ اس نے اپنا اگلا ہدف چین کو مقرر کرلیا ہے۔ چین کے ہدف نمبرون ہونے پر امریکی ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ایک پیج پر ہیں۔ اس حوالے سے اس نے انڈیا کو اپنا نمبرون حلیف اور چہیتا ڈکلیئر کرلیاہے۔ دو ماہ قبل اس نے جی سیون اور نیٹو کو بھی اپنا ہمنوا بناتے ہوئے چین کے بی آر آئی منصوبے کے جواب میں اپنا بی تھری ڈبلیو منصوبہ لانچ کیا۔
چین کے ساتھ پہلے گڑبڑ صرف ساؤتھ چائنا سی میں کی جارہی تھی لیکن اب گوادر کی وجہ سے امریکہ اور چین کی جنگ کا میدان پاکستان بھی بنے گا۔چین نے ہمارے سامنے کوئی لکیر نہیں کھینچی لیکن امریکہ کے تیور بتارہے ہیں کہ وہ بہت جلد پاکستان کے سامنے چین اورسی پیک کے حوالے سے لکیر کھینچ دے گا۔ یوں چین کے ساتھ جاکر امریکہ کو ناراض کرنے کی بھی ایک قیمت ہے اور امریکہ کے ساتھ جاکر چین کو چھوڑنے کی قیمت اس سے کئی گنا بڑی ہے۔دوسری طرف عمران خان کی حکومت نے گزشتہ تین سال میں چین کو حددرجہ ناراض اور بدگمان کردیا ہے۔ سی پیک پر کام عملاً رک گیا ہے۔ چین موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ بس وقت گزار رہا ہے۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے چین کو راضی کرنے کا ٹاسک عمران خان کو سونپا تھا اور امریکہ کو راضی کرنے کی ذمہ داری خود اٹھائی تھی۔عمران خان نے چین کے اعتماد کو تو رتی بھر بحال نہیں کیا لیکن اس چکر میں طالبان کے حق میں یا پھر اسامہ بن لادن وغیرہ سے متعلق ایسے الٹے سیدھے بیانات دئیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ کو راضی کرنے کے کام کو بھی مشکل بنا دیا۔
اس تناظر میں یہ پاکستان کی سفارتی تاریخ کا ایک مشکل اور دور رس نتائج کا حامل فیصلہ ہوگا جو اس ریاست کے مستقبل میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اب ظاہر ہے یہ مشکل فیصلہ بھی عمران خان کی حکومت کرسکتی ہے اور نہ اس فیصلے کو ان پر چھوڑا جاسکتا ہے۔
تیسرا مشکل فیصلہ ہندوستان سے متعلق ہے۔ اس وقت پاکستان جن حالات سے گزررہا ہے، ان کا تقاضا ہے کہ یہ ریاست جیواسٹرٹیجک سے جیواکنامکس کو اپنی ترجیح بنالے۔ ظاہر ہے اس میں پہلا ایشو ہندوستان کا آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک تو تازہ تازہ ڈونلڈ ٹرمپ پر تکیہ اور نریندرمودی پر اعتماد کرکے موجودہ سیٹ اپ نے ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
نواز شریف کی دشمنی میں،ہوش و خرد کی بجائے معاملے کو جذباتی بنانے میں خود عمران خان اور ان کے لانے والوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔یوں معیشت اور خطے کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تعلق سے متعلق بھی جراتمندانہ فیصلے کئے جائیں اور ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ بھی عمران خان کی حکومت کبھی نہیں کرسکتی۔ بلکہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے کوئی راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ذاتی حصار میں بند عمران خان صاحب اس کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔
عمران خان اور ہمارے ملک کے دائیں بازو کے لوگ جشن منارہے تھے کہ افغانستان سے امریکی انخلا نے پاکستان کے مسائل حل کردیئے ہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ معاملہ پاکستان کے لئے سنگین ہوگیا ہے۔ معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا طالبان کا افغانستان اب پاکستان کیلئے درد سر بن گیا ہے۔ ان کے اقدامات کے لئے بازپرس بھی پاکستان سے کی جارہی ہے۔ امریکہ اور یورپ تو کیا روس اور چین بھی ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
اُدھر ٹی ٹی پی کا معاملہ بھی سنگین ہوکر الجھتا جارہا ہے۔ ایک طرف افغان طالبان پاکستان کے رویے سے خوش نہیں اور دوسری طرف وہ سب فریقوں پر مشتمل انکلوسیو حکومت کی تشکیل کے لئے پاکستان کے مطالبات پر عمل نہیں کررہے۔
یوں افغانستان اب پاکستان کے لئے پہلے سے بھی بڑا چیلنج بن گیا ہے جو جراتمندانہ مگردانشمندانہ فیصلوں اور اقدامات کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہ فیصلے بھی عمران خان کی حکومت کرسکتی ہے اور نہ اسے اس کی سمجھ ہے۔پاکستانی ریاست کے کچھ دائمی مسئلے اور فالٹ لائنز ہیں۔ مثلاً بلوچستان، گلگت بلتستان، قبائلی اضلاع اور آزاد کشمیر وغیرہ۔
سندھ میں شہری اور دیہی سندھ کے ایشوز یا پھر انتہاپسندی اور دہشت گردی کے مسائل۔ یہ سب ریاست کے مسائل ہیں لیکن عمران خان اور ان کی ٹیم کو غالباًان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اندازہ اس سے لگالیجئے کہ گوادر میں ہزاروں مردوخواتین کے دھرنے کو تین ہفتے ہوگئے لیکن انہوں نے اب آکر صرف زبانی نوٹس لیا اور ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے معاملات میں ان کا نوٹس لینا ایک ٹویٹ تک محدود ہوتا ہے۔ ان کی حکومت صرف اپنی بقا اور اندرونی سیاست میں مگن ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں کھیل کے قواعد و ضوابط معلوم نہیں اور کل کے بارے میں کوئی تجزیہ یا پیشگوئی نہیں کی جاسکتی لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ ریاست کو بچانے کے لئے اب خارجی، معاشی اور داخلی محاذ پر ان مشکل مگر ناگزیر فیصلوں کے سوا اب کوئی راستہ نہیں بچا اور ظاہر ہے کہ ان مشکل فیصلوں کے لئے اب سیاسی محاذ پر بھی کوئی نہ کوئی بڑا اور مشکل فیصلہ کرنا ہوگا۔باقی مرضی ہے، مرضی چلانے والوں کی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔