16 دسمبر ، 2021
ہم سے بچھڑنے والے اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی منارہے ہیں،ہم اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منانے سے گریز کررہے ہیں۔پاکستان کو دو لخت ہوئے 50 سال ہورہے ہیں۔بنگلہ دیش والے خوش ہیں۔ انہوں نے بہت ترقی کی ہے۔ ان کی معیشت ہم سے کہیں مضبوط ہے۔
ان کا ٹکا ہمارے روپے سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ ہم جو 75 سال میں نہ کرسکے وہ انہوں نے 50سال میں کرلیا۔یعنی ہم ان کی ترقی میں رکاوٹ تھے۔ہم تو اپنی ترقی میں بھی رکاوٹ ہیں۔74سال اور وہ بھی آزادی کے۔ ان کے بعد ہمیں اخلاقی طور پر، سیاسی لحاظ سے۔ اقتصادی حوالے سے جہاں ہونا چاہئے تھا، ہم وہاں نہیں ہیں۔ ہم جبکہ بنگلہ دیش کے 50سال اور اپنے پچاس سال کا تقابلی مطالعہ کریں۔
آنسو بہت بہائے جاچکے۔ خون بہت بہہ چکا۔ لاشیں بہت گر چکیں۔ ایک دوسرے پر الزامات بہت عائد کرچکے۔ ہم نے 1971 کے سانحوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اپنی سیاسی ناکامیوں سے ہمیں کوئی سبق نہیں ملا۔ فوجی ہزیمت سے ہمیں کوئی ندامت نہیں ہوئی۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ رزقِ حلال صرف ہم کماتے ہیں۔ اسلام کا قلعہ صرف ہم ہیں۔
رسول آخر الزماں ؐ کے عاشق صرف ہم ہیں۔ شریعت کے پاسدار فقط ہم ہیں۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو پاکستان لانے کی قرارداد منظور کرے اور سرکاری طور پر 1971 کے واقعات پر ایک مستند، مصدقہ دستاویز شائع کی جائے جو پاکستان کا حتمی موقف ہو۔ اس میں سارے واقعات کا اصل بیانیہ شائع کیا جائے۔
چلئے 50سال میں ہم نے کسی سانحے، کسی معرکے، کسی مقابلے سے کچھ نہیں سیکھا۔ اب بنگلہ دیش کی کامیابیوں سے کچھ سیکھ لیں۔ اس نے اپنی معیشت کیسے مضبوط کی۔ اپنے نوجوانوں کی کیسے تربیت کی۔ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی پر کیسے قابو پایا۔ ان میں اتنا شعور کیسے آیا کہ ہزار احتجاج ہو، ہڑتال ہومگر گارمنٹس کا کام نہیں رکے گا۔
اب ان کی گولڈن جوبلی کی تیاریوں سے کچھ سیکھ کر اپنی ڈائمنڈ جوبلی منانے کی تیاریاں شروع کریں۔ وہ اپنی آزادی کی سالگرہ اور بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن کی سالگرہ دونوں کو ملاکر دس روزہ تقریبات منارہے ہیں۔ ایک بنگلہ بندھو ٹاور تعمیر کیا جارہا ہے۔ عالمی معیار کا ایک نیا کاروباری ضلع بسایا جارہا ہے۔
حسینہ واجد شیخ اپنی تمام شدتوں اور تعصبات کے باوجود بنگلہ دیش کو آنے والی نسلوں کے لیے پُر امن جنت بنارہی ہیں۔ ان کے ہاں ٹیکنو کریٹس کی عبوری حکومت فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ تمام پارٹیوں نے عہد کیا کہ وہ کسی کرپٹ شخص کو الیکشن میں امیدوار نہیں بنائیں گے، نہ پارٹی میں رکھیں گے۔
میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تحریک پاکستان تو مشرقی بنگال میں زوروں پر چلی تھی۔ بنگالی اگر الگ ہوتے وقت پاکستان کا نام خود رکھ لیتے کیونکہ اکثریت تو ان کی تھی۔ پھر اس پاکستان کا کیا ہوتا؟ نظریۂ پاکستان کہاں جاتا؟ اسلام کا قلعہ کسے بناتے؟مشرقی پاکستانی بھائی ہم سے زیادہ سیاسی اور جمہوری شعور رکھتے تھے اور اقتصادی طور پر بھی ان کی منصوبہ بندی ہم سے بہتر تھی۔ بعد میں حالات نے ثابت بھی کردیا۔
ہم ابھی تک سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داروں کو تلاش کررہے ہیں۔ میں تو پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ملک کے دو لخت ہونے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے۔
1970 کی انتخابی مہم پورے ایک سال کیوں جاری رہی؟ جب انتخابی سرگرمیاں، جلسے جلوس ہورہے تھے، پھر جب امیدواروں کے کاغذات داخل کیے گئے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو واضح طور پر نظر آرہا تھاکہ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اتنی تعداد میں امیدوار نامزد نہیں کیے۔
جتنے مشرقی پاکستان میں کیے عوامی لیگ کے سربراہ نے مغربی پاکستان میں جلسوں سے خطاب کا کوئی پروگرام نہیں بنایا۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں ابھرتی اور مقبول ہوتی پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے نہیں کیے۔
اس وقت کوئی پارٹی دونوں بازوؤں میں یکساں طور پر مقبول نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن کو بھانپ لینا چاہئے تھا کہ یہ سیاسی تقسیم ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ الیکشن کمیشن کو یہ شرط عائد کرنی چاہئے تھی کہ ساری پارٹیاں دونوں بازوؤں میں امیدوار کھڑے کریں۔ ورنہ الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ دسمبر 1970 میں جب انتخابی نتائج آئے تو ملک اسی روز دو حصّوں میں بٹ گیا تھا۔
میں تو الیکشن کمیشن کو اصل ذمہ دار خیال کرتا ہوں۔ اب بھی الیکشن کمیشن آئین کی بنیادی روح کے خلاف عمل کرتا ہے، ساری سیاسی پارٹیوں کی شاخیں ملک بھر میں نہیں ہیں۔
بلوچستان کی حکمران پارٹی باقی تینوں صوبوں میں کوئی وجود نہیں رکھتی۔ اب بھی انتخابی نتائج کسی پارٹی کو سب صوبوں میں فاتح نہیں بناتے۔ یہ بھی خطرناک ہے۔بنگلہ دیش ترقی اس لیے کرگیا کہ وہاں بڑی جاگیرداری نہیں تھی۔ قبائلی سردار نہیں تھے۔ ایک زبان اور ایک نسل تھی۔ اس باقی ماندہ پاکستان میں نسلی اور لسانی تعصبات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
مذہبی بلکہ فرقہ وارانہ شدت پسندی زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ لسانیت، صوبائیت، نسلی عصبیت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ برادریوں کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔بنگلہ دیش کے پاس زمین ہماری نسبت فی کس کے حساب سے بہت کم تھی۔ قدرتی وسائل ہماری طرح میسر نہیں تھے۔ پھر بھی ان کے ماہرین معیشت، یونیورسٹیوں کے اساتذہ طلبہ و طالبات نے غریبی میں کام کیا۔ خودی نہیں بیچی۔
ان کے ہاں اپنی قومی زبان، اپنے قومی پس منظر پر فخر بہت زیادہ ہے۔ بنگالی اپنی خوشحالی، اپنی سرزمین، اپنے دریاؤں اور اپنے سمندر میں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم جاگیردار، سردار اپنی خوشحالی واشنگٹن، لندن میں تلاش کرتے ہیں۔ ہم ابھی تک ذہنی طور پر غلام ہیں۔
آج 50 سال پہلے کے المیوں پر وہی پرانے الزامات تراشنے کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کے کیا اسباب ہیں اور ہمارے اقتصادی بحرانوں کے کیا عوامل ہیں؟ اپنے صوبوں سے کیا اسلام آباد کا سلوک اب بھی ویسا ہی نہیں ہے جیسا مشرقی پاکستان کے ساتھ تھا؟ کیا ہم پھر بھارت اور امریکہ کو موقع نہیں دے رہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کی محرومیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں نوجوانوں کو اسلام آباد کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کریں جس طرح 1970 اور 1971 میں ہم نے مشرقی پاکستان کا مزاج سمجھنے میں تاخیر کی تھی۔
اب بھی کیا ہم کراچی کے مزاج کو، گوادر کی نفسیات کو، سندھ کے رجحانات کو جنوبی پنجاب کے ذہن کو گلگت بلتستان کے جذبات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگارہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔