Time 21 دسمبر ، 2021
بلاگ

عبرت سرا

ساری دنیا میں شور ہے کہ آگے بڑھو۔ افغانی بھوک اور سردی سے مر رہے ہیں۔ ساتھ میں ہر میڈیا دکھا رہا ہے کہ مریم نواز کے بیٹے کی شادی میں 36ڈشز پیش کی گئیں۔ میں بھی اچھا کھانا پکاتی رہی ہوں مجھے مریم سے ان 36ڈشز کے نام چاہئیں کہ مجھے بھی شاعری کے علاوہ کھانے بنانے میں نئے تجربات کرنے کا شوق ہے۔ 

ایک طرف یہ درخواست، دوسری طرف یہ سوال کہ آپ نے بیٹے کی شادی پر جس قدر ناز نخرے کئے، وہ سب صائب۔ سوال یہ ہے کہ جو قوم راشن بھی مشکل سے حاصل کرسکے اس کے نمائندہ بننے کی خواہش رکھنے والے لیڈران، شادی میں ایک دفعہ یا ایک دن نہیں، لندن اور لاہور میں کئی کئی دن تک جشن منائیں۔ مثال کیا قائم کر رہے ہیں کہ پھر عروج ملا تو ایسا ہی کریں گے۔ سارا خاندان اور وہ سارے لیڈر جو پی پی میں بھی شامل ہیں اور جنہوں نے بخت آور کی شادی کا جشن دیکھا تھا۔ 

ان دونوں پارٹیوں سے دست بستہ پوچھ رہی ہوں کہ ایک طرف اپنی ایمانداری ظاہر کرنے کے لئے روز عدالتوں میں حاضری اور صفائی پیش، آخر یہ کب تک دیکھیں۔ نیب میں تو بظاہر بڑی طاقت ہے، روز اس کے سربراہ، خطبہ عطا کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کوئی دن جاتا ہے کہ ساری فائلیں بھٹی میں ڈال کر جلا دی جائیں گی۔ ابھی تک ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے زمانے کی فائلوں کے بارے میں بات کرنا منع ہے۔ بہت ڈرامہ بازی ہوچکی۔ 

دونوں پارٹیوں کے یہاں شادیوں کو ٹی وی اسکرینوں نے دکھایا کہ پہلے اگر نہیں کیا کہ ثابت نہ ہوسکا تو آئندہ کے لئے کم از کم تقریروں کے نعرے ہی بدل ڈالیں۔ نعرے بازی میں تو تحریک انصاف 35 مشیروں کے باوجود، پھوکٹ ہی نکلی۔ شاید معجزہ ہو جائے۔ ہماری ان دونوں زندانی پارٹیوں کے محلات اور امارت کے قصے نظام حیدرآباد کی بقایا دولت و محل حیدرآباد دکن میں جاکر دیکھیں اور انڈیا کے دیگر راجواڑوں کے محلات جے پور میں دیکھنے کے لئے موجود ہیں۔ ہماری خوش بختی ہے کہ مغلوں کی طرز پر دولت چھپانے کا کام ہمارے ملک کے سارے سیاست دان کرتے اور کبھی بھی شرمندہ نہیں ہوتے ہیں۔

اسموگ کے زمانے میں سیالکوٹ میں جلائی گئی شخصیت کی موویز اس طرح لوگ دیکھ رہے ہیں، جیسا کہ انڈین فلموں کے کرداروں کی شادیوں کی موویز۔ ایک بات اور پتہ نہیں سچ کہ جھوٹ، ہندوستان کے ایک ڈیزائنر نےیہ دعویٰ کیا ہے کہ میرے بتائے ہوئے ڈریس مریم پر بہت اچھے لگ رہے تھے۔ کوئی اعتراض نہیں، آخر فرانسیسی ڈیزائنر کے کپڑے بھی تو لوگ پہنتے ہیں اور ڈیزائنر خود بناتے ہیں۔ 

یہاں مسئلہ بیچ میں کشمیر کا آجاتا ہے۔ ہم سب ادیب، سرحد کی دونوں جانب، کتابوں اور دوستوں سے ملنے سے محروم ہیں، ان دونوں ملکوں کی ہٹ دھرمی، خاص کر مودی صاحب کی فرعونیت کے باعث آخر کب تک یوں کام چلے گا۔ آخر 2004ء میں دونوں ملکوں میں معاہدہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے کشمیر میں ویزا اورا ٓنے جانے کی پابندیاں ختم، بسیں دونوں جانب سے اور شادی کے شادیانے بھی دونوں جانب خوب بجے۔ 

پھل اور پشمینہ کی تلاش میں بیگماتِ اسلام آباد، بہت خوش تھیں۔ پھر مشرف نے خود اختیاری کے ذریعہ کارگل کیا، بہت سے فوجی جوان شہید ہو گئے پھر پلوامہ ہوگیا۔ دونوں ملکوں میں دہشت گرد ایک چھوڑو۔ ہزار ملتے ہیں۔ یہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کو بس بی بی سی رپورٹ کرتا ہے۔ جیسا کہ اس وقت افغانستان کو کوئی ملک تسلیم نہیں کررہا اور رولا ڈال رہا ہے کہ لوگ بھوک اور سردی کے مارے مررہے ہیں۔

 طالبان بھی مودی کی طرح ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں اور خواتین کو نہ پڑھنے دے رہے ہیں نہ کام کرنے دے رہے ہیں بلکہ وہ فوجی جو گزشتہ حکومت اور امریکہ کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے انہیں چن چن کر مار رہے ہیں۔ دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جیسے برما میں فوج آنگ سوچی کی چار سال کے لئے سزا کا اعلان کررہی ہے۔ سارے ملک خاموش ہیں۔

چین کی جانب سے بھی ہمارے کرتوتوں کا احوال کھل جانے پہ، انہوں نے بھی باگیں کھینچ لی ہیں۔ سی۔ پیک معلوم نہیں ہے کہ نہیں۔ البتہ گوادر کے مچھیروں کے ایک ماہ کے مسلسل دھرنے کے بعد، صوبائی اور قومی ممبران اشک شوئی کے لئے گئے۔ ایک اور جھوٹ اور ملمع سازی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بالکل جیسے OICکے رہنمائوں نے افغانی مسائل حل کرنے کے اعلامیے میں عورتوں کی آزادی اور حقوق کو اولیت نہیں دی۔

 ویسے اس دفعہ افغانستان میں بھنگ کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے اس سے حاصل شدہ پیسہ کس خانے یا کھاتے میں جارہا ہے۔ شاید شبلی اس کا جائزہ لے کہ پاکستان میں وہ بھنگ کا وزیر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔