اخلاقی دیوالیہ پن یا نظام تباہ ہوچکا" غورو فکر"

ملک کی مجموعی صورت حال پر نگاہ ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ آئین یا اس کے تحت کوئی قانون ملک میں موجود نہیں ہے۔ واقعات کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ ہم اخلاقیات کھوچکے اور مجموعی طورپر معاشرہ اخلاقی طور پربھی دیوالیہ ہوچکا ہے۔

عوام پربے روزگاری، غربت وافلاس بڑھتی مہنگائی ، چھینے گئے وسائل پر بے بسی کے ساتھ وزراء ، مشیران اور سرکاری ترجمانوں کے سب اچھا کے بیانات جلتے ہوئے تیر کی مانند ہیں ۔۔۔کرپشن نے قانونی صورت اختیار کرلی ہے اور جمہوریت کا حسن بن گئی ہے۔پنجاب میں غربت وا فلاس سے بچوں سمیت والدین خودکشی کررہے ہیں، خواتین پر تشدد ،بچیوں کوقتل کرنے کے واقعات اورتفریح کے لئے مر ی جانے والے درجنوں شہریوں کی بے بس موت نے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ۔۔

کے پی کے میں اندازحکومت کا نتیجہ ہم بلدیاتی انتخابات میں دیکھ چکے۔۔ افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں وہاں بھی بے روزگاری میں اضافہ اور کاروبارو تجارت میں کمی ہورہی ہے۔سرکاری اداروں میں کرپشن کی کہانیاں یہاں بھی عام ہیں ۔۔

سندھ میں میڈیکل کی طالبات کی خودکشیاں ، سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی سرکاری سرپرستی میں آزادانہ موجیں ، شہروں کی تباہ حال سڑکیں اور حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسیاں اور سیاسی اور سرکاری سطح پر بے انتہا کرپشن واضح طور پرسامنے ہیں۔سندھ میں کھربوں کا ترقیاتی بجٹ خرچ ہوچکا لیکن اس کا ثمر عام آدمی تک نہیں پہنچ پارہا نہ ہی ترقی نظر آرہی ہے۔

صوبے میں وسائل اور سرکاری نوکریوں کی غیرمنصفانہ تقسیم بھی وجہ اختلاف بن رہی ہے۔۔ بلوچستان میں گوادر سے کوئٹہ، ژوب، چمن تک غم اور دکھ بھری داستانیں ، معصوم لوگوں کا قتل اور لاپتہ ہوجانے کے واقعات ، دیہی علاقوں میں غربت اور بے بسی کے ڈیرے ساتھ ہی کرپشن لیکن بیانیہ یہ کہ سب کنٹرول میں ہے ۔۔ ملک کے طول و عرض میں یوں لگتا ہے جنگل کا قانون ہےحکومتی ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ہی بے جا منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں نے بنیادی اشیاء کی قیمتیں بے انتہا بڑھادی ہیں۔۔

شوگر، گندم، ڈیری، پولٹری، لائیواسٹاک سے منسلک اشیاء پر مافیا کا کنٹرول ہے جب چاہیں جتنا چاہیں نرخ مقرر کرلیں ۔۔قبضہ اور لینڈ مافیا، بلڈرمافیا، ٹینکرمافیا کے بعدایسا لگتا ہے کہ اب اداروں نے مافیا کا روپ دھار لیا ہے۔۔یہ گمان ہورہاہےکہ سرکاری ادارے قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کی بجائے خود قانون شکنی پر آمادہ ہیں اور مافیاز کے سرپرست اعلی بن چکے ہیں ۔۔اس کی مثال عدالتوں میں ان معاملات پر کرپشن سے متعلق چلنے والے کیسز کی پیش رفت واضح ہے۔۔۔ 

عدالتی احکامات پرمشکل سے عمل درآمد ہورہا ہے عدالتی فیصلوں کو اب سرعام تبصروں میں لاکر تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے یہ مواقع کیوں پیدا ہورہے ہیں اور کون غلطی کررہا ہے طویل بحث ہے لیکن ایک تاثر بن رہا ہے کہ نظام لپٹ گیا ہے افراتفری کا عالم ہے اور ہرطاقتور مزید طاقت حاصل کرکےبدمست ہورہا ہے ایسے میں معاشرے کے دیگر طبقات بھی اپنی حیثیت کے مطابق وہی انداز اختیار کررہے ہیں ۔۔

ایسی صورت حال کیوں ہے جو حکومتیں بنانے کا تاثر رکھتے ہیں وہ کہاں ہیں کیا وہ اس میں شامل ہیں ، جمہوری نظام کے تحت منتخب ہونے والے چاہے اپوزیشن میں ہوں یا حزب اقتدار میں کیوں ایسا محسوس ہورہا ہے سب ذاتی مفادات ، طاقت کے حصول کے قریب اور عوامی مسائل کے حل، غربت کے خاتمے اور قانون کی عمل داری کی سوچ سے کوسوں دور ہیں ۔۔

تصویر ایسی ہے کہ آئین مفلوج ہے اور بدمست ہاتھی ہرشعبے میں عوام کو اپنے پاوں تلے روندنے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔۔ایسے میں میڈیا کا کردار بھی ثانوی ہوکر رہ گیا ہے ۔۔میڈیا کو اپنے اوپرمرغے لڑانے، سیاسی جانبداری ، ایجنڈا پروان چڑھانے ،کرپشن کا منبع جیسے الزامات کا عوامی ردعمل کیوں نظر نہیں آرہا ۔۔

یہ رائے کہ قانون طاقتور کے لئے کمزور کے لئے مختلف ہے ہماری مجموعی خستہ حالی کی عکاسی کررہی ہے۔۔شایدیہ جملہ " ملکی حالات اور غور و فکر" ملک میں ہرخاص و عام کی توجہ کا منتظر ہے ۔۔۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔