بلاگ
Time 16 جنوری ، 2022

ہم اپنی اولادوں کیلئے کیسا پاکستان چھوڑیں گے؟

آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں  پوتیوں نواسوں نواسیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا دن، ان کی دل نشیں باتیں سننے اور ان سے کچھ سیکھنے کے لمحات وہ ہم سے زیادہ با خبر ہیں، موبائل فون کے ذریعے انہیں ہر سیکنڈ پر تازہ ترین خبریں مل جاتی ہیں، انہیں علم ہے کہ دنیا کس طرف جارہی ہے۔ ہم دنیا سے کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔

 ترقی یافتہ قومیں اپنے وسائل اور آبادی میں توازن رکھتی ہیں، مختلف طبقوں میں کتنے اختلافات ہوں،  مگر ملک کی سلامتی، معیشت کے بارے میں سب کا ایک خیال ہوتا ہے۔ 

اس وقت پاکستان کا سب سے خطرناک مسئلہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے وہ ہے ملک کی تیزی سے بڑھتی آبادی۔ 2.2 فی صد کی شرح سے دنیا میں آنے والے نومولود ہماری ساری اقتصادی منصوبہ بندی تباہ و برباد کررہے ہیں۔

 جمعرات 13 جنوری کو ہمارے عظیم وطن کی آبادی 227446718 تھی،  آبادی بلا روک ٹوک بڑھ رہی ہے، کم عمری میں شادیاں ہورہی ہیں۔ سب کو شوق ہے آبادی بڑھانے کا۔ بعض اوقات اولاد نرینہ کے انتظار میں بیٹیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

1971 میں مشرقی پاکستان کی آبادی 6½کروڑ تھی،  مغربی پاکستان کی 6 کروڑ  اب 2021 میں بنگلہ دیش 16کروڑ ، پاکستان 22کروڑ۔ بنگلہ دیش کی حکومتیں ذمہ دار ہیں،  اپنے لوگوں کی اقتصادی خوشحالی کی آرزو رکھتی ہیں، اس لیے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے آبادی کی منصوبہ بندی کو اولیں ترجیحات میں رکھا۔ پاکستان میں فوجی ہو یا سیاسی سرکار،  کسی کی ترجیح میں آبادی کا کنٹرول نہیں ہے، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے،  بے حساب سنگین مسائل کو جنم دے رہا ہے۔

 مری کا سانحہ بھی اسی بڑھتی آبادی کا شاخسانہ تھا، کاش کوئی غور کرسکتا کہ مری کا رقبہ بھی وہی تھا،  سڑکیں بھی وہی لیکن وہاں جب ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں پہنچ جائیں تو سانحہ رُونما ہونا تھا، اس المناک واقعے سے آپ اندازہ کرلیں کہ پاکستان کا رقبہ اتنا ہی ہے جو 1971 میں تھا، جب آبادی 6کروڑ تھی، اب پاکستانی ماشاء اللہ 22کروڑ ہوگئے ہیں، وہی رقبہ اب کتنے گنا بوجھ برداشت کررہا ہے۔

 کوئی اینکر پرسن کوئی ماہر اقتصادیات کوئی قومی سیاسی لیڈر یہ تجزیہ نہیں کرتا کہ اتنے رقبے کے لیے کتنے انسان مثالی ہوسکتے ہیں، جن کو پینے کا پانی بھی ملے ، کھانے پینے کی اشیا،  پیٹرول بھی متحرک کرنے کے لیے کافی ہو۔ کپاس کپڑوں کے لیے مناسب ہو،  رقبے کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 34واں ملک ہے، آبادی کے حوالے سے پانچواں۔ اسی تفادت سے آپ جانچ سکتے ہیں کہ کتنی مشکلات ہوں گی، ہمارے فکر کی بنیاد اپنے وسائل پر انحصار کی نہیں ہے۔

 انسانی ضروریات تو ہر روز بڑھ رہی ہیں،  ہم اپنی زمین ۔ اپنے پانی۔ اپنے معدنی وسائل کی بجائے واشنگٹن کی طرف دیکھتے ہیں،  آئی ایم ایف سے مدد مانگتے ہیں،  اس طرح قرضے بڑھتے جاتے ہیں،  میرے ذہن میں یہ فارمولا آرہا ہے کہ جو7سے8کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں،  یہی ضرورت سے زیادہ آبادی ہے۔

اگرہم آبادی پر کنٹرول کرتے اپنے لوگ 14کروڑ تک رکھتے تو اتنی زیادہ پریشانیاں نہ ہوتیں۔ پاکستان کا اہم محل وقوع ہماری سہولت اور استحکام بننے کی بجائے خطرات کا موجب بن گیا ہے۔ ایک طرف بھارت ہے،  ہمارا زلی دشمن، جہاں سے کبھی ہمارے لیے خیر کی خبر نہیں آئی،  افغانستان میں ہمیشہ انتشار رہتا ہے، منشیات کی سوداگری۔ فرقہ واریت۔صوبائیت۔ دہشت گردی۔ انتہا پسندی۔ کرپشن۔ ا من و امان کی بد ترین صورت حال۔ پیٹرول ڈیزل۔کھانے پینے کی اشیا کی بڑھتی قیمتیں۔ ان سب کا بنیادی سبب بے ہنگم بڑھتی آبادی ہے، شہر بری طرح پھیل رہے ہیں۔

 کسی محکمے کا ان پر کنٹرول نہیں ہے، کسی منصوبہ بندی کے بغیر کچی آبادیاں جنم لے رہی ہیں، جہاں انسانوں کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں ، گاؤں قصبوں میں بدل رہے ہیں،  دیہی آبادی شہر کی طرف منتقل ہورہی ہے،  سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کرواتیں،  بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیتیں ، اس لیے کراچی جیسے شہر بھی منظم نہیں ہوپاتے۔

مہذب قومیں اپنی ہر منصوبہ بندی۔ ہر کارروائی۔ ہر عمل کا محور انسان کو رکھتی ہیں کہ زندگی آسان سے آسان ہو۔ کھانے پینے۔ صحت۔ تعلیم۔ نقل و حرکت کی سہولتیں مثالی ہوں،  ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوتا جارہا ہے ، سادہ لباس میں بھی وردی میں بھی۔جس کے پاس ضرورت کی ہر چیز فراواں ہے،  بلکہ ضرورت سے کہیں زیادہ۔ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو ضرورت کی بنیادی چیزوں کو ترستا ہے۔

 پینے کا صاف پانی نہیں ہے، دو وقت کی روٹی نہیں ہے۔ پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔ پائوں میں جوتے نہیں ہیں،  بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان ساری قلتوں کی جڑ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ وسائل گھٹ رہے ہیں، وسائل دریافت بھی نہیں کیے جارہے ہیں،  فی ایکڑ پیداوار نہیں بڑھائی جارہی ہے،  مینو فیکچرنگ کم ہوتی جارہی ہے، صنعت کی بجائے تجارت ہورہی ہے،  ہم صارفین کی مارکیٹ بن رہے ہیں،  آبادی بڑھتی ہے تو آمدنی کے وسائل بھی بڑھنے چاہئیں۔

 ماہرین اور محققین جو صدیوں سے تحقیق کے نتیجے میں فارمولے دے رہے ہیْں، علاج بتارہے ہیں ہماری حکومتیں ان سب کو نظر انداز کرتی ہیں، اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ایوب خان کی حکومت کے بعد کسی فوجی یا سیاسی حکومت نے آبادی اور وسائل میں توازن کی فکر نہیں کی ہے اور نہ ہی اس لحاظ سے منصوبہ بندی کی ہے۔ ہمارے دانشور۔ ماہرین۔ بینکار۔اساتذہ بھی بڑھتی آبادی کے اس ٹائم بم سے خائف نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں اپنی گنتی یعنی مردم شماری بھی مشکل سے ہوتی ہے۔ آبادی کا حقیقی شُمار ہی نہیں ہے تو منصوبہ بندی کیسے حقیقت پر مبنی ہوگی۔

کوئی ادارہ کوئی میڈیا گروپ،  کوئی یونیورسٹی تو میدان میں آئے اور آبادی کے بڑھتے سیلاب کے آگے بند باندھے۔ نیوزی لینڈ نے برسوں سے اپنی آبادی 50 لاکھ تک محدود کی ہوئی ہے،  ہم ہر سال اپنی آبادی میں 50 لاکھ بڑھادیتے ہیں، یعنی ہم ہر سال ایک اور نیوزی لینڈ آباد کردیتے ہیں۔

2030 میں ہماری آبادی 24کروڑ ہوجائے گی اور 2050 میں 38کروڑ ۔ اس وقت رقبہ اتنا ہی ہوگا،  وسائل بھی اتنے، مشکلات کتنی بڑھ جائیں گی،  ہم اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے لیے جنت چھوڑیں گے یا دوزخ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔