17 جنوری ، 2022
سانحہ مری دسیوں معصوم لوگوں کی بے بس موت وہاں ہوئی ۔۔جہاں چاروں طرف اداروں کی بڑی دیواریں، ہوٹل انڈسٹری اور صاحب حیثیت لوگ موجود تھے۔۔ بادی النظر میں معصوم بچوں ، خواتین ، نوجوانوں کی اموات کی بڑی وجہ کاربن مونو آکسائیڈ یا ٹھنڈ نہیں تھی بلکہ انسانی رویہ، لالچ اور سنگین غفلت ہے جو ایک تلخ حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔۔۔
طویل عرصے عدالتی رپورٹنگ کے دوران کئی اہم اور ہائی پروفائل کیسز میں عدالتی تحقیقات کا انداز دیکھا تو سانحہ مری پر درجنوں سوالات بن جاتے ہیں اور انہی میں سے آئندہ نظام کو مضبوط کرنے کا راستہ نکلتا ہے۔۔۔
قومی ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی بنائی گئی تو محسوس ہوا کہ کوئی بھی ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی تو یہ ادارہ بہتر طور پر اس سے نمٹ سکے گا اربوں روپے کا بجٹ بھی مل گیا لیکن سانحہ مری میں پیشگوئی کے باوجود یہ ادارہ مفلوج نظر آیا اور 23 معصوم قیمتی جانیں ایک بھرپورتفریحی مقام پر ضائع ہوگئیں۔
محکمہ موسمیات الرٹ جاری کیا اور برف باری کی شدت سے آگاہ کیا تو صوبائی حکومت، چیف سیکریٹری پنجاب، کمشنروضلعی انتظامیہ ، ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی کے کیا اقدامات تھے۔۔
گاڑیوں اور سیاحوں کا رش دیکھ کر پولیس، ٹریفک پولیس سمیت دیگر رپورٹنگ ایجنسیز کیوں صورت حال کا اندازہ نہیں کرپائے اگر کرلیا تھا تو کیا پیغام اتھارٹیز کو بھیجا گیا۔۔
پولیس کا افسر سمیت نہ جانے کتنے سرکاری اداروں سے منسلک سیاح اور عام لوگوں نے متعلقہ اداروں کو مدد کی اپیل کی تو کیوں امدادی ادارے اور فورس حرکت میں نہیں آئی۔۔
کیوں کوئی کمیونیکشن کا نظام فعال نہ ہوسکا ۔۔انسانی بصیرت کام کیوں نہ کرسکی کہ لوگوں کو گاڑیوں سے نکل کر محفوظ مقام پر جانے کی ہدایت نہ کی جاسکی کیوں رضاکارانہ جذبہ سخت سردی میں سرد ہوگیا کیوں انسانیت گرگئی ۔۔
ایسی صورت حال میں سڑکوں کو مسلسل صاف کرنے کے لئے مشینری نے کیا کام کیا۔۔سخت موسم میں کام کرنے والا ماہر عملہ کہاں غائب ہوگیا۔۔سینئر صحافی انصارعباسی صاحب کا کالم پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ یہ تمام عمل انجام دیا جاتا ہےلیکن اس روز کیا ہوگیا تھاسمجھنا عقل سے بالا تر ہے۔
ان سب سے ہٹ کردیکھیں تو انسانی رویے سےیہ المیہ کیوں جنم لے گیا کیوں یہ معصوم لوگ بھوک کی حالت میں سستی خوراک اور رہائش نہ حاصل کرسکے اور اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔۔
کیوں لالچ نے ہوٹل اور ریسٹورینٹس انتظامیہ کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔حالات کی نزاکت کو منفی انسانی رویے کھاگئے۔۔
کیا کوئی ایسا ادارہ بھی موجود ہے جو ان مقامات پر منافع کو مخصوص حد تک رکھنے کا پابند ہو۔۔اگر ہے تو کیا وہ ادارہ اس کرپشن میں شامل تھا۔۔
مزید باریکی میں جائیں تو درجنوں سوالات مزید بن جائیں گے لیکن سرکاری ادارے ہوں ، اتھارٹیز ہوں ، فورسز ہوں عام لوگ ہوں انسانی رویوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔۔انسانوں میں درد مند دل اور رضاکارانہ خدمات کا جذبہ بھی معاشرے میں شاید کئی مزید سانحات کو روک سکتا ہے ۔۔حیرت انگیز بات ہے کہ سول ڈیفنس، اسکاوٹس ، نیشنل کیڈٹ کورس، ویمن گائیڈز،سمیت سرکاری تعاون سے چلنے والے دیگر ادارے فعال ہی نہیں ہیں۔۔۔۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔