17 جنوری ، 2022
سابق نیول چیف ایڈمرل ریٹائرڈ ظفر محمود عباسی نے نیوی سیلنگ کلب سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیوی سیلنگ کلب گرانے اورسابق نیول چیف کےخلاف فوجداری کارروائی کا فیصلہ چیلنج کرنے کی درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں ایڈمرل ریٹائرڈ ظفرمحمود عباسی کی جانب سے اشتر اوصاف ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
اشتر اوصاف نے سنگل بینچ کا 7 جنوری کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی جب کہ اپیل کنندہ نے کہا کہ جس درخواست پر فیصلہ سنایا گیا وہ قابل سماعت ہی نہیں تھی، عدالت نے پٹیشنر کو وہ ریلیف دیا جو پٹیشن میں مانگا ہی نہیں گیا تھا، اپیل کنندہ کے خلاف پٹیشن میں فوجداری کارروائی کی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔
اشتر اوصاف نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ سابق نیول چیف نے غیرقانونی عمارت کا افتتاح کیا، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔
اشتر اوصاف کے دلائل پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہرچیز سرکار کی ہوتی ہے جس کا استعمال متعلقہ ڈپارٹمنٹ کرتا ہے، عدالتوں کی متعلقہ منسٹری وزارت قانون ہے، وہی عدالتوں کیلئے بلڈنگ لیتے ہیں، آرمڈ فورسزکی متعلقہ منسٹری وزارت دفاع بنتی ہے، نیول فارمزکیلئے زمین کس نے خریدی؟ انتقال کس کے نام ہوا؟ نیول فارمز کی زمین خریدنے کا مقصد کیا تھا؟ پوچھ کربتائیں کہ سیکرٹری کابینہ نے عدالتی حکم پرعملدرآمد کیا ہے یا نہیں؟
اشتر اوصاف نے کہا کہ پرسوں تک سی ڈی اے عدالتی فیصلے پر ایکشن نہ لے لے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ ظفرمحمود عباسی کو گرفتار کرلیا جائے گا؟ اس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل موجود ہیں، ان کو بلا کرپوچھ لیتے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے پٹیشنرکے وکیل کو متعلقہ ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 19 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 7 جنوری کو اپنے فیصلے میں راول جھیل کے کنارے بنے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا حکم دیا تھا۔