20 جنوری ، 2022
سندھ ہائیکورٹ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی ) پولیس سندھ مشتاق مہر پر برہمی کا اظہار کیا ہے ۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آفتاب احمد گورڑ اور جسٹس عدنان الکریم پر مشتمل ڈویژن بینچ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو آئی جی سندھ مشتاق مہر پیش ہوئے۔
2015 میں شہید کیے جانے والے ڈی ایس پی عبد المجید کے اہل خانہ کو معاوضے کی عدم عدائیگی کے خلاف درخواست پر عدالت نے آئی جی سندھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
عدالتی کارروائی کے دوران انسپکٹر جنرل پولیس سندھ مشتاق مہر کی سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے سرزنش کی۔
صوبے میں لوگ مررہے ہیں ، آپ 3 سال سے آئی جی ہیں، پولیس کے کمانڈر ہیں کچھ نہیں کرپارہے؟جسٹس آفتاب احمد گورڑ آئی جی سندھ مشتاق مہر پر برہم
بینچ کے سربراہ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مشتاق مہر کو دیکھتے ہی کہا "آئی جی صاحب آپ سے سندھ میں مٹھی بھر ڈاکو کنٹرول نہیں ہو پا رہے، ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں،صوبے میں لوگ مررہے ہیں، پولیس والے بھی شہید ہورہے ہیں،آپ 3 سال سے آئی جی ہیں، پولیس کے کمانڈر ہیں کچھ نہیں کرپارہے؟"
جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مزید کہا کہ "کندھ کوٹ میں پل بن رہا ہے ڈاکو ان سے بھی پیسے مانگ رہے ہیں"۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ "کہا گیا چار ڈاکو مار دیے، ڈاکو پولیس نے نہیں مارے، ڈاکوؤں کے ایک گروپ نے دوسرے گروہ کے ڈاکو مارے، پولیس والے لاشیں خریدتے ہیں پھر پریس کانفرنس کرکے کریڈٹ لیتے ہیں۔"
جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے ریمارکس دیے کہ اندر سے سب ملے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو اسپورٹ کرتے ہیں، آئے دن چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتیں ہورہی ہیں۔
جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی جانب سے سرزنش کے دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے رہے
جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مشتاق مہر کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سب آپ سے کیوں کنٹرول نہیں ہوپا رہا؟ "
جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی جانب سے سرزنش کے دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے رہے۔
شہید ڈی ایس پی عبد المجید کے اہل خانہ کو حکومت کی جانب سے معاوضے کی عدم ادائیگی کے خلاف درخواست کی سماعت کے حوالے سے جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مشتاق مہر سے پھر استفسار کیا کہ "آئی جی صاحب 3 سال سے آپ آئی جی ہیں لیکن عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہورہا، جس افسر کو جواب جمع کرانے کا کہتے ہیں وہ کہتا ہے میری ابھی پوسٹنگ ہوئی ہے۔"
جسٹس آفتاب گورڑ نے استفسار کیا کہ شہید پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ کو معاوضہ دینے کے معاملے پر تضاد کیوں ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے جواب دیا کہ کسی شہید پولیس اہلکار کو معاوضہ سندھ پولیس نے نہیں دیا، ڈی ایس پی عبدالفتح سانگھڑی کے اہلخانہ کو معاوضہ وزیراعلیٰ سندھ نے دیا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ مزید بیان کیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی صوابدید پر ایک شہید ڈی ایس پی عبدالفتح سانگھڑی کے اہل خانہ کو 2 کروڑ روپے معاوضہ دیا۔
شہید ہونے والے ایک ڈی ایس پی کو 2 کروڑ جبکہ دوسرے ڈی ایس پی عبدالمجید کے اہل خانہ کو 20 لاکھ روپے دیے گئے:وکیل درخواست گزار
اس پر درخواست گزار کے وکیل اعجاز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ شہید ہونے والے ایک ڈی ایس پی کو 2 کروڑ جب کہ دوسرے ڈی ایس پی عبدالمجید کے اہل خانہ کو 20 لاکھ روپے دیے گئے۔
وکیل درخواست گزارنے اعتراض اٹھایا کہ ایک شہید ڈی ایس پی کے اہل خانہ کو 2 کروڑ دوسرے کو 20 لاکھ روپے معاوضہ دینا امتیازی سلوک ہے، شہید پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ کو کتنا معاوضہ دینا ہے کوئی قانون موجود ہی نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ پولیس کو بھی اختیار نہیں وہ کسی شہید اہلکار کو کتنا معاوضہ دینا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ ڈی ایس پی عبدالمجید کے معاوضے کے لیے پولیس نے محکمہ داخلہ اور خزانہ کو 18 جنوری کو خط لکھا ہے، اگر کوئی قانون موجود نہیں ہے پھر عدالت پولیس اور حکومت کو کیسے حکم نامہ جاری کرسکتی ہے۔
ڈبل بینچ کے رکن جسٹس عدنان الکریم نے ریمارکس دیے کہ "وزیر اعلیٰ نے بھی کسی شہید اہلکار کو زیادہ رقم دی تو وہ بھی غلط دی"۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ پبلک منی کسی کو اپنی مرضی سے کیسے دے سکتے ہیں؟
عدالت نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ بھی واضح کرچکی ہے کہ وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ پبلک منی کا اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت استعمال نہیں کرسکتے۔
بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ ڈی ایس پی عبدالمجید عباس کو 2015 میں شہید کیا گیا تھا۔