Time 26 جنوری ، 2022
بلاگ

میں مزید خطرناک ہوجاؤں گا

ایاک نعبدوایاک نستعین۔ میرے پاکستانیو! بطور حکمران میں نے آپ کو ایک ایسی ٹیم دی جس پر میرے سوا آپ سب شرما رہے ہیں۔ میں نے پنجاب میں آپ کو عثمان بزدار اور خیبر پختونخو میں بزدار پلس دیا۔ بلوچستان میں نے جام کمال کے سپرد کیا۔ ان سب کی یہ خوبی ہے کہ وہ میرے یا میرے پرنسپل سیکرٹری کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ماشااللہ ہر ایک نے اپنے اپنے صوبے کا بیڑہ غرق کردیا۔

میں نے ”ان“ سے دونوں بھائی مانگے تھے لیکن زبیر عمر نہیں مانے اور انہوں نے مجھے اسد عمر تھما دیا۔ اسد نے مجھے باور کرایا تھا کہ وہ معیشت کے ماہر ہیں۔ مجھے سو دن کا پلان دیا تھا اور یہ یقین دلایا تھا کہ سو دن کے اندر اندر پاکستانی معیشت ٹھیک کر دیں گے لیکن بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ معیشت کے الف ب سے بھی واقف نہیں بلکہ مارکیٹنگ کے آدمی ہیں اور مارکیٹنگ بھی اپنی پروڈکٹ کی نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کی کرسکتے ہیں لیکن میں انہیں وزیرخزانہ بنا کر پھنس چکا تھا۔

چنانچہ انہوں نے معیشت کی تباہی کی ایسی بنیادیں رکھ دیں کہ میں تین وزیرخزانہ تبدیل کرکے بھی اسے ٹریک پر نہیں لاسکا۔ چنانچہ اب ہم نے سب کچھ آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے اور یہ جو ہر پندرہ دن بعد آپ پر مہنگائی کا بم گراتے ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ جو کچھ کرتا ہے وہ آئی ایم ایف ہی کرتا ہے۔

میرے پاکستانیو! میں نے آپ سے احتساب کا وعدہ کیا تھا لیکن ظاہر ہے اپنا یا پھر زلفی بخاری جیسے اپنے چہیتوں کا تو میں احتساب نہیں کرسکتا تھا تاہم چونکہ احتساب تو کرنا ہی تھا، اس لیے میں نے اپوزیشن والوں، فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس اور کچھ میڈیا پرسنز کو ان سے پکڑوا اور ذلیل کروادیا۔

اس میں بھی چیئرمین نیب اگر مگر کررہے تھے لیکن شکر ہے کہ ان کا کچھ آڈیو وڈیو مواد میرے ہاتھ آگیا، جس سے بلیک میل کروا کر میں ان سے کام چلا رہا ہوں ورنہ وہ تو شاید الٹا میرے بندوں کو اندر کردیتا۔

میرے پاکستانیو! میں نے حکمران بننے کے لیے ”ان“ سے الیکٹ ایبلز مانگے تھے۔ اللہ گواہ ہے کہ شاہ محمود قریشی مجھے زہر لگتے ہیں اور میں ان کو، لیکن ”انہوں“ نے مجھے ایک طرف وہ تھما دیا اور دوسری طرف جہانگیر ترین۔

”انہوں“ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ میری حکومت میں ان کو وزیراعلیٰ بنائیں گے لیکن الیکشن کے دوران صوبائی انتخابات میں ان کو ایک آزاد امیدوار سلمان نعیم نے شکست دے دی جبکہ وہ کہتا ہے کہ میری وزارتِ اعلیٰ کا خواب جہانگیر ترین نے پورا نہیں ہونے دیا۔ میں نے انہیں وزیرخارجہ بنا دیا لیکن وہ اس سے خوش ہیں نہ مطمئن۔

چنانچہ روزانہ جان بوجھ کر کبھی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بگاڑتے ہیں، کبھی کسی دوسرے ملک کے ساتھ۔ ہم دونوں چونکہ بادل ناخواستہ ایک دوسرے کو برداشت کررہے ہیں، اس لیے مل بیٹھ کر کوئی جامع خارجہ پالیسی نہیں بناسکے۔

چنانچہ اب امریکہ بھی ہم سے ناراض ہے اور چین بھی غیرمطمئن۔ سی پیک پر کام رکوانے اور اس کا حلیہ بگاڑنے میں بھی میرا ذاتی قصور نہیں۔ چینیوں کو یا تو اسد عمر نے ناراض کیا، رزاق دائود نے یا خسرو بختیار نے۔ میں نے تو اس کے لیے سی پیک اتھارٹی بناکر جنرل عاصم باجوہ کو سربراہ بھی بنا دیا لیکن ان کے دوسرے مسائل نکل آئے۔

جہاں تک مراد سعید کا چینیوں کو ناراض کرنے کا تعلق ہے تو اس میں مراد سعید کا کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے جو پریس کانفرنس کی اور کرپشن کے الزامات لگائے، وہ نواز شریف اور احسن اقبال کی دشمنی میں تھے۔ یوں اگر چینی ناراض ہیں اور سی پیک پر عملاً کام رک گیا ہے تو اس میں بھی میرا کوئی قصور نہیں۔

میرے پاکستانیو! میں چونکہ پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاست میں آیا تھا۔ اس لیے کابینہ بناتے وقت میں نے پوری کوشش کی کہ کرپشن کے ماہر پرانے سیاستدانوں کو زیادہ اہم وزارتیں نہ دوں۔

لہٰذا میں نے چن چن کر نئے چہروں کو متعارف کرایا۔ جس نے لندن میں میری خدمت کی تھی، جس نے کراچی میں میزبانی کی تھی، جس نے امریکہ میں میری مہمان نوازی کی تھی یا جو پاکستان میں میرے خوشامدی تھے، میں نے اصل اختیارات ان کو دیے۔ حتی کہ میں نے اپنا اے ڈی سی بھی فیصل جاوید کے بھائی کو لگا دیا۔

میرا خیال تھا کہ یہ لوگ میرے چہیتے بن کر دیگر وزرا پر بھی نظر رکھیں گے لیکن مصیبت یہ ہے کہ بعض معاملات میں وہ تجربہ کاروں سے بھی زیادہ تجربہ کار نکلے۔ اب اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تو تبدیلی لانا چاہتا تھا لیکن مصیبت یہ ہے کہ حکمران بننے کے بعد میرے لوگ بدل گئے۔

میں تو ریاستِ مدینہ بنانے میں لگا ہوں لیکن کچھ لوگ پھر بھی مجھے فارغ کرنے میں لگ گئے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ میری کشتی سے لوگ کیوں چھلانگ رہے ہیں۔مجھے اندازہ ہے کہ مجھے رخصت کیا جارہا ہے لیکن میں انہیں خبردار کرتا ہوں کہ حکومت سے نکل کر میں زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔

لیکن میرے پاکستانیو! یہ صرف دھمکی ہے۔ جو لوگ مجھے قریب سے جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ میں ایسا کچھ نہیں کرسکوں گا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ جن کو میں نے دھمکی دی ہے، اگر ان کے بارے میں زبان کھول دی تو پھر وہ بہت بری سزا دیتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے پاس مجھ سے متعلق مواد کے انبار پڑے ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ پھر جیل میں ڈالتے ہیں اور ایک آزادمنش انسان ہونے کے ناطے میں بہت مشقت تو کرسکتا ہوں لیکن جیل نہیں جاسکتا۔ کچھ لوگوں نے میری دھمکی کو یوں ہی سنجیدہ لے لیا ہے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ان کے بارے میں سب کچھ کہہ دوں۔

یہ تو ویسے ہی ان کو دھمکی لگائی تھی کہ شاید وہ ڈر جائیں لیکن اگر وہ نہ ڈریں تو پھر میں جاکر ان کے قدموں میں بیٹھ کر انہیں راضی کرلوں گا۔ آپ لوگ فکر نہ کریں۔ مجھے اس کام کا خوب تجربہ ہوچکا ہے۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ دھمکی دے کر اور چھیڑخانی کرکے پھر منت ترلہ کرکے ان کو منا چکا ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔