29 جنوری ، 2022
لیڈر یا سیاسی جماعت کو اس کے نعروں کے تناظر میں تولا جاتا ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت میں مدرسے بند اور ڈانسنگ کلب کھل جائیں تو آپ کیا کہیں گے؟
اسی طرح اگر زرداری کی حکومت میں میڈیا اور پارلیمنٹ پر پابندی لگ جائے اور صدارتی آمریت قائم کی جائے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عمران خان کی حکومت میں ایسا ہی ہوا اور پھر بھی خاموشی ہے۔
جس طرح مولانا کی سیاست اسلامی نظام اور مدارس کے تحفظ یاپھر زرداری کی سیاست جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے گرد گھومتی ہے، اسی طرح عمران خان کی سیاست کرپشن کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی سیاست میں کرپشن کا خاتمہ ہی بنیادی نکتہ رہا بلکہ یہ نعرہ ان کو ورثے میں ملا تھا۔
پی ٹی آئی کے قیام سے قبل جنرل حمید گل مرحوم اور محمد علی درانی وغیرہ نے تحریکِ احتساب کے نام سے جو پریشر گروپ بنایا تھا، عمران خان اس کا حصہ تھے اور پھر بنیادی طور پر تحریکِ احتساب کا دستور ہی پی ٹی آئی کا دستور بنا جس کا بنیادی خاکہ ڈاکٹر فاروق خان مرحوم، جنرل حمید گل اور محمد علی درانی وغیرہ نے تیار کیا تھا۔
یوں پہلے دن سے ان کی زبان پر کرپشن کا لفظ چڑھ گیا تھا اور ابھی تک چڑھا ہوا ہے۔ یوں کسی اور معاملے میں ان سے خیر کی توقع تو کم تھی لیکن ہر کسی کو یہ غلط فہمی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کرپشن میں کمی لے آئیں گے لیکن اس معاملے میں بھی تبدیلی الٹی پڑگئی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جس کے بارے میں برسر اقتدار آنے سے قبل عمران خان اپنی ہر تقریر میں حوالے دیا کرتے تھے، کے مطابق آصف زرداری کی حکومت میں کرپشن پرسپشن انڈیکس کے مطابق جب پاکستان بلند ترین سطح پر گیا تھا تو اس کا نمبر139 ہوگیا تھا، حالانکہ زرداری کے دورِ اقتدار کے باقی برسوں میں یہ 126اور 127رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان کا نمبر 116اور 117رہا۔
لیکن کرپشن کے خلاف میدان میں نکلنے والے مردِمجاہد عمران خان کی حکومت میں پہلے سال پاکستان کرپشن میں ترقی کرکے 117سے 120پر چلا گیا، دوسرے میں مزید ترقی کرکے 124پر چلا گیا اور امسال 140پر چلا گیا۔یوں کرپشن کے معاملے میں عمران خان کی حکومت نے زرداری حکومت کو بھی مات دے دی اور اس سے بھی ایک درجے اوپر یعنی 139سے 140پر چلی گئی لیکن ’’کمال‘‘ملاحظہ کریں کہ وہ اب بھی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
میں شروع دن سے کہہ رہا ہوں کہ سونامی سرکار میں کرپشن ماضی کی حکومتوں سے زیادہ ہے لیکن فضا ایسی بنادی گئی تھی کہ جب میں یہ دعویٰ کرتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا۔
لوگوں کو پارٹی فنڈنگ کیس کی اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ سے پتہ چلا لیکن مجھے کئی سال قبل پتہ تھا کہ پی ٹی آئی کے کن کن ”فرشتوں“ نے بنی گالہ میں پلاٹس خریدے، حالانکہ وہ مالی لحاظ سے اس وقت مجھ جیسے لوگ تھے۔ اسی طرح مجھے کئی سال پہلے پتہ چلا تھا کہ کس طرح سیلاب زدگان کے لیے جمع ہونے والی امداد کے پورے پورے ٹرک غائب ہوگئے تھے۔
اسی طرح لوگ تو صرف عمران خان کے اے ٹی ایمز کا ذکر کررہے ہیں لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عمران خان کے قریب ہر بندے نے کس طرح اپنے اپنے اے ٹی ایم رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس وقت ہمارے صوبے سے ٹوبیکو اور دیگر انڈسٹریز کے نصف درجن سینیٹرز ہیں اور میں ایک ایک کے بارے میں جانتا ہوں کہ کون کس کے اے ٹی ایم کا کردار ادا کررہا ہے؟
سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کرپشن کے میدان میں پیپلز پارٹی سے بھی آگے کیسے نکل گئی؟ میرے نزدیک اس کی چند بڑی وجوہات ہیں:
یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے کہ جس پر میڈیا کا کوئی چیک نہیں۔ پہلے اس کے لیے میڈیا کہیں اور سے کنٹرول کیا گیا اور اسے مثبت رپورٹنگ پر مجبور کردیا گیا۔ دوسری طرف خود اس حکومت کی تمام تر توجہ میڈیا کو قابو میں رکھنے پر رہی ہے۔ جب کبھی حساب ہوگا تو پتہ چلے گا کہ میڈیا مینجمنٹ پر سب سے زیادہ پیسہ اس حکومت نے خرچ کیا۔ پہلے پارٹی کی سطح پر سینکڑوں سوشل میڈیا ٹیمیں رکھی گئی تھیں اور اب ان لوگوں کو وزارتِ اطلاعات سے لاکھوں میں تنخواہیں دی جارہی ہیں۔
یہ وہ حکومت ہے کہ جس کے اہلکاروں کو احتساب وغیرہ کا کوئی خوف نہیں۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ نیب کو استعمال کرکے ان کے مخالفین کو باہر کروایا اور ان کو ایم این اے یا ایم پی اے بنایا گیا۔ جو تھوڑا بہت خوف تھا وہ اس دن ختم ہوگیا جب چیئرمین نیب کے آڈیوویڈیو مواد کو عمران خان صاحب نے قبضے میں لیا اور اس کے بعد سے چیئرمین نیب صرف وزیراعظم نہیں بلکہ وزرا کے احکامات پر بھی اسی طرح عمل کررہے ہیں جس طرح ایک سرکاری ملازم کرتا ہے۔
اس حکومت میں شامل لوگوں کے ہاں ندیدہ پن بھی بہت زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے کبھی یونین کونسل کا ممبر بننے کا بھی نہیں سوچا تھا، وہ وزیر مشیر بن گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا اور آخری موقع ملا ہے، اس لیے جوکرنا ہے کر ڈالو۔ مثلاً وزیراعظم کے قریب ایک پارلیمنٹیرین جو چند سال قبل ہماری طرح تھے اور پی ٹی آئی کے میڈیا سیل میں وائس اوور کا معاوضہ لے کر گزر اوقات کرتے تھے، نے اسلام آباد کے ایف سیون میں کوٹھی خریدی۔انہوں نے ایک ارب پتی سینیٹر کو اپنا اے ٹی ایم رکھا ہوا ہے۔
اس حکومت میں مافیاز کی بہتات ہے۔ مثلاً پیپلز پارٹی کے دور میں دو تین مافیاز حکومت کو نوازتی اور اس کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتیں۔ اسی طرح نون لیگ کی حکومت میں بھی دو تین مافیاز ہی کام دکھاتیں لیکن عمران خان کی حکومت میں ملک کی تمام مافیاز کو ان سے نتھی کرلیا گیا ہے۔ سگریٹ مافیا، کار مافیا، ٹیکسٹائل مافیا، قبضہ مافیا، چینی مافیا، غرض ہر مافیا کے لوگ یا تو براہِ راست حکومت میں شامل ہیں یا پھر فنانسر ہیں۔
یہ تاریخ کی وہ حکومت ہے جسے مکمل طور پر مافیاز چلارہی ہیں۔ اس حکومت میں زیادہ تر وہ لوگ بااختیار ہیں جنہوں نے عوام کے پاس جانا ہے اور نہ شاید مستقبل میں اس ملک میں رہنا ہے۔ کوئی برطانیہ سے آیا ہے، کوئی امریکہ یاکسی اور ملک سے۔ کچھ اپنا کام نکال کر غائب ہوگئے اور باقی وقت آنے پر اپنے اپنے ملکوں کی طرف چلے جائیں گے۔ مثلاً کہاں گئے ندیم بابر، کہاں غائب ہیں افتخار درانی وغیرہ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔