Time 11 فروری ، 2022
بلاگ

وزیر اعظم اور عوامی رابطہ مہم !!

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن سے پہلے خود میدان میں اترنے اور عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے اور   یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب اپوزیشن کی جماعت پیپلز پارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا آغاز 27 فروری سے کرنے کا اعلان کیا جب کہ  پی ڈی ایم نے حکومتِ وقت کیخلاف لانگ مارچ کیلئے 23 مارچ کی تاریخ رکھی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ سے پریشان نہ ہوں کیونکہ یہ پہلے بھی ناکام ہوئے ہیں اور اب بھی ہونگے، عوام انہیں مسترد کرچکی ہے اور عوام کے پاس پی ٹی آئی کے سوا کوئی بہتر آپشن نہیں ہے۔

اب یہاں کئی سوالات اٹھتے ہیں۔

- اگر حکومت کو اپوزیشن کے لانگ مارچ سے پریشانی نہیں ہے تو پھر وزیراعظم خود عوامی رابطہ مہم کیوں شروع کررہے ہیں؟

- اِس مہنگائی کے عالم میں جب عوام حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہو تو وزیراعظم اتنے پُراعتماد کیسے ہیں؟

- کیا خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست نے وزیراعظم کو مجبور کیا کہ وہ عوامی رابطہ مہم شروع کریں؟

- کیا اب عوام عمران خان کو سننے جلسوں اور اجتماعات کا رخ کریں گے؟

- یا پھر حکومتی مشینری و وسائل سے عوام کو لایا اور جلسے سجائے جائیں گے؟

- عوامی اجتماعات سے عمران خان کیا پھر وہی 2018 کے انتخابات سے پہلے اپوزیشن والے عمران خان کی طرح خطاب کریں گے؟ یا بطور وزیراعظم اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوائیں گے؟

- کیا پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے نئی اسکیموں کے اعلانات کیے جائیں گے؟

وزیراعظم 18 فروری سے منڈی بہاؤالدین سے عوامی رابطہ مہم کا باقاعدہ آغاز کریں گے۔ عوامی رابطہ مہم میں جن نکات پر اپوزیشن کو نشانہ بنایا جائے گا اس ایک چھوٹا سا ٹریلر تو فیصل آباد میں صحت کارڈ کے اجرا کی تقریب سے خطاب میں ہم دیکھ چکے۔ اب عوام کو وزیراعظم اگر پھر سے چور، ڈاکو اور ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والی باتوں سے اپوزیشن کے خلاف کرنے کی کوشش کریں گے تو اُس میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی کیونکہ خود عمران خان جن کو چور ڈاکو کہا کرتے تھے وہ ان کے ساتھ آج حکومت میں بیٹھے ہیں۔

اِس وقت عوام کا بنیادی مسئلہ مہنگائی ہے اور اگر عمران خان عوام میں پھر سے کرپشن اور احتساب کے بیانیے کو بیچنے کی کوشش کریں گے تو پھر حالیہ کرپشن انڈیکس میں 23 درجے پاکستان کی ترقی کو کیسے نظر انداز کرسکیں گے؟ جو عمران خان کی اپنی ساڑھے تین سالہ حکومت میں ہوا۔ 

عوامی رابطہ مہم کے لیے ضروری ہے کہ پچھلی حکومتوں پر سب ملبہ ڈالنے، انہیں بُرا بھلا کہنے، معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے، مزید نفرتیں پھیلانے اور ریاست مدینہ کی آڑ میں مذہب کارڈ استعمال کرنے سے بہتر ہوگا کہ اپنی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی سے عوام کو مائل کریں کہ وہ PTI کو اگلے انتخابات میں ووٹ ڈالیں۔

عوام کو بھی چاہیے کہ وزیراعظم سے پوچھیں کہ آپ نے جو پچھلے انتخابات میں وعدے اور دعوے کیے تھے وہ کیوں پورے نہ ہوسکے؟ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ہم (تحریک انصاف) اپوزیشن سے لوٹی ہوئی دولت نکلوانے میں نتائج نہیں دے سکے۔ تو پھر عوام کیا دوبارہ وہی باتیں سننا چاہیں گے؟ یہ فیصلہ تو باشعور عوام کو ہی کرنا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔