12 فروری ، 2022
عمران احمد خان نیازی نے اپنے منتخب کردہ، اپنی ہی کابینہ کے وزرا کی کارکردگی کی بنیاد پر ایک فہرست جاری کرکے نئی روایت کی بنیاد رکھ دی ہےجب کہ اس کے ساتھ ہی دوسرے درجے یا باالفاظ دیگر ناقص کارکردگی دکھانے والے وزرا کی فہرست بھی جاری کردی ہے ۔
شاندار کارکردگی دکھانے والوں میں پہلے نمبر پر وزیر مواصلات مراد سعید، دوسرے نمبرپر وزیر پلاننگ اسد عمر ، تیسرے نمبر پر ثانیہ نشتر،چوتھے نمبر پر وزیرتعلیم شفقت محمود، پانچویں نمبر پر انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری، چھٹے نمبر پر وزیر صنعت خسرو بختیار، ساتویں نمبر پر مشیر قومی سلامتی معید یوسف ، آٹھویں نمبر پر وزیر تجارت رزاق دائود ، نویں نمبر پر وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور دسویں نمبر پروزیر فوڈ سیکورٹی فخر امام کو رکھا گیا ہے ۔
اس فہرست کے مطابق جن وزرا کو سیکنڈ کلاس یا دوسرے درجے میں رکھا گیا ہے ان میں پہلے نمبر پر وزیر دفاع پرویز خٹک، دوسرے نمبر پروزیر قانون فروغ نسیم ، تیسرے نمبر پر وزیراطلاعات فواد چوہدری ، چوتھے نمبر پر وزیر نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر شفقت محمود ، پانچویں نمبر پر وزیر خزانہ شوکت ترین، چھٹے نمبر پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے وزیر یعنی خود عمران خان ، ساتویں نمبر پروزیر ریلوے اعظم سواتی، آٹھویں نمبر پر وزیر آبی وسائل مونس الٰہی، نویں نمبر پر وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور ، دسویں نمبر پروزیر انسدادِ منشیات بریگیڈئیر اعجاز شاہ اور گیارہویں نمبر پر وزیر اکنامک افیئر زعمر ایوب خان شامل ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ فہرست کن معیارات کے مطابق تیار کی گئی ہے ۔ اگر تو کارکردگی کی بنیاد پر ہے تو پھر کامیاب ترین وزرا میں مراد سعید ،اسد عمر ، شیریں مزاری، شفقت محمود، رزاق دائود اور شیخ رشید کے نام کیوں ہیں ؟مراد سعید کی وزارت میں سڑکوں کے جتنے بڑے منصوبے مکمل ہوئے وہ سابقہ دور کے ہیں ۔ انہوں نے اگر آمدنی بڑھائی ہے تواس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ٹال ٹیکس میں سو فی صد سے بھی زیادہ اضافہ کیا گیا ہے ۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ معیشت کی تباہی کی بنیادیں اسد عمر نے رکھی تھیں اور خود عمران خان نے انہیں اس وزارت سے ہٹایا تھا ۔ اب وہ پلاننگ کے وزیر ہیں تواس ملک میں سب کچھ ہے لیکن پلاننگ کہیں نظر نہیں آتی۔ سی پیک (جس کے زیادہ تر امور اسی وزارت سے متعلق ہیں) کا بیڑہ بھی انہوں نے غرق کیا ہے ۔ لیکن وہ مراد سعید کے بعد دوسرے نمبر پر کامیاب ترین وزیر قرار پائے ہیں ۔ انسانی حقوق کی جو صورتحال ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے ۔
یہ وہ بدقسمت ملک ہے جس میں ہزاروں لوگ مسنگ پرسنز ہیں لیکن شیریں مزاری کامیاب ترین وزیر قرار پائی ہیں ۔اسی طرح کون نہیں جانتا کہ اس حکومت میں یونیورسٹیوں کا بیڑہ غرق ہوا، ان کے فنڈز کئی سال سے منجمد ہیں ، اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہیں لیکن پھر بھی متعلقہ وزیر یعنی شفقت محمود کامیاب ترین قرار پائے ہیں ۔ دوسری طرف شفقت محمود، جو ہیرٹیج اور کلچر کے وزیر بھی ہیں، کی ان وزارتوں کو بری کارکردگی دکھانے والوں کی فہرست میں بھی رکھا گیا ہے ۔ اب ایک وزیر یا کامیاب ترین ہوسکتا ہے یا ناکام ۔اسی طرح وزیر تجارت رزاق دائود کو بھی کامیاب ترین وزیروں کی فہرست میں رکھا گیا ہے حالانکہ تجارت کا جو حال ہے، وہ سب کے سامنے ہے ۔
اسی طرح ملک میں امن و امان کی یہ حالت ہے کہ اسلام آباد میں ڈاکے پڑرہے ہیں لیکن شیخ رشید پھر بھی کامیاب وزیر قرار پائے۔ مجھے تو مراد سعید اور اسد عمر کو سرفہرست رکھنے کی اس کے سوا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ زبان چلانے کے ماہر ہیں ۔ شہباز گل کے پاس وزارت نہیں ورنہ مجھے یقین ہے کہ وہ مراد سعید اور اسد عمر سے بھی آگے ہوتے ۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری اس فہرست میں اپنی جگہ کیوں نہیں بناسکے ؟ حالانکہ وہ بھی تو عمران خان کی خوشی کے لئے مخالفین کو لتاڑنے میں آخری حد تک جاتے ہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان دنوں وہ عمران خان کی گڈ بکس میں سرفہرست نہیں کیونکہ ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی تھی، ان دنوں میں انہوں نے عمران خان کے حسبِ منشا بیانات نہیں دئیے ۔
اس حکومت کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ اس فہرست کو جاری کرتے ہوئے عمران خان نے اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا کہ وہ خود اپنی اہم ترین وزارتوں یا باالفاظ دیگر اپنی حکومت کی ناکامی کی گواہی دے رہے ہیں ۔ مثلاً ہم کہتے رہے کہ ان کی حکومت نے خارجہ پالیسی تباہ کرکے رکھ دی لیکن ان کے ترجمان کچھ اور سناتے رہے ۔اب اس حکومت نے خود گواہی دی کہ وزارت خارجہ کی کارکردگی ناقص ہے۔ اسی طرح ہم دہائی دیتے رہے کہ معیشت تباہ ہوگئی لیکن ان کے ترجمان کچھ اور سناتے رہے ۔
ماضی میں وزیر خزانہ اسد عمر، پھر وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور پھر وزیرخزانہ حماد اظہر کو ہٹا کر عمران خان نے انہیں ناکام وزرائے خزانہ ڈکلیئر کیاتھا لیکن اب شوکت ترین بھی کامیاب وزرا کی فہرست میں شامل نہیں ۔ جب یہ حکومت خود گواہی دے رہی ہے کہ اس کے وزرائے خزانہ یا وزارت خزانہ کی کارکردگی ناقص یا دوسرے درجے کی ہے تو پھر معیشت کی بہتری کے دعوئوں میں صداقت کیسے ہوسکتی ہے ؟ ہمیں بتایا جارہا تھا کہ صحت کارڈ بڑا کارنامہ ہے جبکہ میں عرض کرتا رہا کہ صحت کارڈ بہت بڑا فراڈ ہے لیکن اب ڈاکٹر فیصل سلطان کو ناکام وزرا کی فہرست میں رکھ کر خود اس حکومت نے گواہی دی کہ صحت کارڈ فراڈ ہے ۔
میں تو پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ مسئلہ ٹیم کا نہیں کپتان کا ہے کیونکہ ٹیم بھی کپتان مقرر کرتا ہے لیکن یہاں یہ ڈرامہ رچایاگیا ہے کہ یہ تاثر دیا جائے کہ کپتان تو بہت کام کے ہیں لیکن ٹیم بہتر نہیں ۔ حالانکہ ٹیم ان کی بنائی ہوئی ہے ۔ اس فہرست میں شاہ محمود قریشی وغیرہ کے ساتھ ساتھ عمران خان کی کارکردگی بھی دوسرے درجے کی قرار دی گئی ہے کیونکہ دوسرے درجے کی کارکردگی کی حامل وزارت میں آٹھویں نمبر پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی ہے جس کا کنٹرول خود وزیر اعظم کے پاس ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں اس فہرست کے معیارات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔عمران خان خود کھلاڑی رہے اور بخوبی جانتے ہیں کہ ایوارڈز اور انعامات میچ کے اختتام پر دیے جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان کو خود بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ دی گیم از اوور۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔