16 فروری ، 2022
پہلے سونامی برپا کرنے کے لیے یہ کام کیا گیا اور پھر سونامی نے سرکار کی صورت اختیار کرکے اس عمل کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ یہ کام تھا میڈیا کو بدتمیزی، گالی اور فتویٰ بازی کے راستے پر لگانا، اسے بےوقعت اور تقسیم کرنا۔ اس سونامی کو برپا کرنے کے لیے میڈیا کو تقسیم کیا گیا، اس کی کریڈیبیلٹی ختم کی گئی۔
ہزاروں کی تعداد میں ملک کے اندر اور بیرون ملک سوشل میڈیا کے سیل بنائے گئے، جن کا کام مخالف سیاسی لیڈروں اور عمران خان کے نقاد اینکروں کی کردار کشی کرنا تھا۔ اُن کی دیکھا دیکھی مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی جواب کے لیے اپنے اپنے سیل بنائے۔
پی ٹی آئی نے شہباز گل، فیاض الحسن چوہان، مراد سعید، شبلی فراز اور فواد چوہدری جیسے لوگوں کو آگے کیا اور اپنی صفوں میں موجود سنجیدہ سیاستدانوں کو پچھلی صفوں میں دھکیل دیا چنانچہ جواب میں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں بھی بدتمیزی کی زبان بولنے والے اہمیت اختیار کر گئے۔ اقتدار ملنے کے بعد پی ٹی آئی کو سرکاری وسائل بھی ہاتھ آئے۔
چنانچہ وزارتِ اطلاعات میں باقاعدہ سوشل میڈیا سیل بنایا گیا اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے سرکار کے وسائل استعمال ہونے لگے۔ سوشل میڈیا ٹرولز کے کرتا دھرتا اعلیٰ سرکاری عہدوں پر لگا دیے گئے۔ صوبوں میں بھی اس عمل کو دہرایا گیا۔ مثلاً خیبر پختونخوا میں قبائلی اضلاع میں عوامی شعور پیدا کرنے کے لیے ستر کروڑ روپے کے فنڈز سے پی ٹی آئی کے ٹرولرز بھرتی کرائے گئے۔ (دستاویزی ثبوت میرے پاس موجود ہیں)۔ یہ فنڈ قبائلی اضلاع کے نام پر خرچ ہو رہا ہے لیکن ان میں قبائلی نوجوان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناقدین کی کردار کشی اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سرکاری وسائل کو استعمال کرکے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا استعمال کس بڑے پیمانے پر کررہی ہے۔
جہاں تک مین اسٹریم میڈیا کا تعلق ہے تو حکومت ملتے ہی عمران خان نے ہر اخبار اور ہر ٹی وی چینل کو اپنی پارٹی کے اخبار اور اپنی پارٹی کے چینل میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور جو اس کے لیے تیار نہیں ہوا، اس اخبار اور اس چینل کا چلنا مشکل بنادیا گیا، جس کی وجہ سے ہزاروں صحافی بیروزگار ہو گئے۔
اب تو محسن بیگ جیسے رازدان بھی گواہی دے چکے ہیں کہ کس طرح عمران خان نے میر شکیل الرحمٰن اور ڈان گروپ کے حمید ہارون کو پھنسانے کے احکامات دیے۔ اسی طرح عمران خان چاہتے تھے کہ ہر تجزیہ کار شہباز گل بن جائے، ہر کالم نگار منصور آفاق بن جائے اور ہر اینکر فواد چوہدری (فواد چوہدری کچھ عرصہ پہلے اینکر تھے) بن جائے۔ جو ایسا بننے پر تیار ہوا، اسے نوازا گیا اور جو اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا، اس کا جینا حرام کردیا گیا۔
یہ سونامی سرکار ہی ہے کہ جس میں طلعت حسین، حامد میر، نصرت جاوید، نجم سیٹھی، ثنا بُچہ، عنبر شمسی، مرتضیٰ سولنگی اور اسی نوع کے دیگر صحافیوں کو ٹی وی اسکرینوں سے آؤٹ کردیا گیا۔ جو چند ایک ناقد بچے ان کا گالم گلوچ اور سوشل میڈیا ٹرولنگ کے ذریعے جینا حرام کردیا گیا۔ مطیع اللہ جان، اسد طور اور ابصار عالم کو دوسرے طریقوں سے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے، اس کے ذکر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں تب سے یہ برداشت کررہا ہوں جب آج زیر عتاب بہت سارے صحافی عمران خان کے سحر میں مبتلا تھے۔
یہ ساری تفصیل میں نے اس لیے بیان کی کہ میڈیا کو میڈیا رہنے نہیں دیا گیا اور اصل ایشو پر توجہ دینے کی بجائے اب میڈیا میں بھی صرف اس پہلو پر توجہ دی جاتی ہے جو پی ٹی آئی کا کلچر ہے۔ مثلاً وزرا کی کارکردگی اور ایوارڈز کے معاملے کو لے لیجئے۔
اس پورے معاملے میں صرف مراد سعید کی نامزدگی کو غلط رنگ دے کر اٹھایا گیا اور پھر ان کی کردار کشی کی گئی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے لوگوں کی عزتیں اچھالنے کے لیے جن لوگوں کو استعمال کیا، ان میں مراد سعید بھی سرفہرست ہیں لیکن برائی کا جواب برائی سے دینا کوئی شرافت نہیں۔
یوں ان کے بارے میں میڈیا یا سوشل میڈیا پر جو زبان استعمال ہوئی، وہ قابلِ مذمت ہے۔ اسی طرح عمران خان کی اہلیہ سے متعلق غلط خبریں پھیلائی گئیں اور یہ بھی اگرچہ مکافاتِ عمل کا حصہ ہے لیکن یہ نہایت غلیظ حرکت تھی اور جو لوگ اس کے مرتکب ہوئے، انہیں اللہ اور خاتونِ اول سے معافی مانگنی چاہیے۔
تاہم میڈیا کے اس نازیبا کلچر کا حکومت کو یہ فائدہ بھی پہنچا کہ وزارتوں کی کارکردگی کی اصل بحث پس منظر میں چلی گئی۔ مثلاً عمران خان ہر روز ریاست مدینہ کا کارڈ بری طرح استعمال کررہے ہیں لیکن خود عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے جو فہرست جاری کی ہے، اس میں وزارتِ مذہبی امور کی کارکردگی اس قدر ابتر ہے کہ وہ دوسری کیٹیگری میں بھی نہیں آسکی۔
حالانکہ اگر وزیراعظم سنجیدہ ہوتے تو نمبرون کارکردگی تو وزارتِ مذہبی امور کی ہونی چاہیے تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست مدینہ کا نام صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی طرح خود عمران خان صاحب نے ان ایوارڈز کے ذریعے یہ فتویٰ صادر کردیا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر خزانہ شوکت ترین کی کارکردگی ناقص ہے۔ اب جب وزیراعظم خود یہ اعتراف کرے کہ وزارتوں کی کارکردگی ناقص ترین ہے تو پھر خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں کی کامیابی کے دعوے کیسے درست ہو سکتے ہیں؟
یہی فتویٰ انہوں نے دفاع، قانون، اکنامک افیئرز اور انرجی کی وزارتوں کے بارے میں دیا ہے۔ یوں تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم نے عملاً اپنے وزیر خارجہ، وزیرخزانہ، وزیر قانون، وزیر اطلاعات، وزیر مذہبی امور، وزیر اکنامک افیئرز اور وزیر سائنس وغیرہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس پر ہی بس نہیں بلکہ اس فہرست کی رو سے خود عمران خان کی کارکردگی بھی ناقص ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا نمبر بھی اٹھارہ ہے اور اس کے انچارج وزیر خود عمران خان ہیں۔
یوں یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے جو خود اپنی اہم وزارتوں کی کارکردگی کے ناقص ہونے کا اعتراف کررہی ہے اب جو خود اپنی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرے، اگر اس حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو پھر اس اپوزیشن کے رہنما خود کو سیاستدان کہنا چھوڑ دیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔